اس سے پہلے کہ یہ حالات مزید ابتر ہوں
آپ اعمال سے اقوال کو ثابت کردیں
خرابی بیسیار
انتخابات کے دوران جن قائدین نے اپنا سیاسی سرمایہ وسیع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ان میں سے بعض کو کامیاب ملی اور بعض ناکامی کا منہ دیکھ کر پس منظر میں چلے گئے۔ بی جے پی کے کئی ایسے قائدین نے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے جن کے خلاف کئی رشوت ستانی، گھپلوں اور اسکامس کے مقدمات کے الزامات ہیں۔ بی جے پی کے سابق صدر نتن گڈکری کے خلاف بھی کئی گھپلوں کے الزامات تھے۔ آر ایس ایس نے ان ہی الزامات کے مدنظر انہیں صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب بی جے پی کو سیاسی قت اور اقتدار حاصل ہوتی ہے تو تمام مقدمات، شکایات، الزامات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ نتن گڈکری نے اب ایک نئی منطق چھیڑی ہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی صدرجمہوریہ کے عہدہ کیلئے موزوں ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی اپنی حکومت کو فوری طور پر چیلنج بننے والے مسائل سے چھیڑ چھاڑ کرکے عوام پر مہنگائی کے بوجھ میں مزید اضافہ کررہے ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کے اسکامس زدہ لیڈران اپنی کرسیوں کے سہارے لمبے لمبے منصوبے بنا کر بیروزگار ساتھی قائدین کو روزگار سے منسلک کرنے کوشاں ہیں۔ مودی نے سابق حکومت کے کمیشنوں، پیانلوں اور اداروں کو برخاست کرکے نئے سرے سے کام کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ بی جے پی ایک ایسے طرز کی حکمرانی کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے نتائج ملک کے جمہوری اور دستوری اداروں کیلئے مناسب نہیں ہوں گے۔ پارلیمنٹ کو ایک جمہوری طرزحکومت کا مرکز کم اور حکومت کو یعنی بی جے پی کی حکمرانی کو ہی بااختیار رکھنے کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے۔ انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر تشہیری سہارے سے عوام کو گمراہ کرنے والے نعروں کے ساتھ عوام کو توجہ مبذول کرانے والے منصوبے پیش کئے گئے تھے۔ سیاسی سرمایہ کے ذریعہ ملک کو بڑے خطرات میں جھونکنے کی پالیسیاں اگر ہندوستانی عوام کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں تو یہ بہت بڑا سانحہ ہوگا۔ مودی نے گذشتہ 3 دن کے دوران دو مرتبہ وزیر آئیل دھرمیندر پردھان سے ملاقات کرکے گیس کی قیمتوں میں اضافہ پر غور کیا۔ وزیرفینانس ارون جیٹلی سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا کوئی بھی فیصلہ فوری طور پر کیا جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جن پالیسیوں اور اقدامات کی یو پی اے حکومت میں مخالفت کی جارہی تھی اب بی جے پی اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو اپنی اولین ترجیح بنارہی ہے تو پھر وزیراعظم مودی سے کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ وزیراعظم ملک کا ایک عظیم لیڈر ہوتا ہے اس لئے ان کی ناکامی کی اصل وجہ کیا ہے اس پر کوئی غور کرنے کی بھی ہمت نہیں کرتا جیسا کہ بعض دانشوروں سے خاص کر سابقہ پولیس عہدیدار کرن بیدی نے کہا تھا کہ ایک قطعی اکثریت رکھنے والی حکومت ہی ٹھوس اور جرأت مندانہ فیصلے کرسکتی ہے۔ اگر غریبوں کو ستانا ہی بہادری ہے تو پھر یہ کام سابق حکومتوں میں بھی ہورہا تھا۔ عوام نے بی جے پی کو کیوں کر ووٹ دے کر اقتدار تک لایا ہے۔ نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد ازخود اپنے کاموں اور کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا ہوگا۔ انہوں نے اب تک ’’راج دھرم‘‘ پر عمل کرنے کا کوئی خاص مظاہرہ بھی نہیں کیا تو عوام ان میں اور منموہن سنگھ کی کارکردگی میں فرق تلاش کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔ کارپوریٹ گھرانوں کو کئی ایک مراعات دینے والے اقدامات بھی بہت جلد دکھائی دیں گے۔ ریلوے کرایوں میں اضافہ کے ذریعہ یہ تو اشارہ دیا گیا ہے کہ بہت جلد یا دیر سے اس ریلوے کو خانگیایا جاسکتا ہے۔ جب کوئی حکومت کسی سرکاری ادارہ کو خسارہ سے دوچار ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ بالواسطہ طور پر یہ اشارہ دیتی ہیکہ اس ادارہ کو خانگیا جائے گا۔ کارپوریٹ گھرانوں کی دولت سے تشہیری مہم چلا کر اقتدار تک پہنچنے کے عوض کارپوریٹ گھرانوں کو کئی ایک مراعات دیئے جانا کوئی حیران کن بات نہیں ہوگی۔ عوام کی آرزوؤں اور امنگوں کا گھلا گھونٹ کر ہی سیاسی پارٹیاں اور قائدین اپنی امنگوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ بی جے پی کے جن قائدین کے خلاف الزامات ہیں ان کو کابینہ سے دور رکھنا ہی پہلا انصاف کا عمل ہوگا مگر نریندر مودی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ نتن گڈکری کو ہٹانے کی ہمت وہ نہیں کرسکتے یا ان کی طرح ان وزراء کو برطرف کرسکتے ہیں جن پر مقدمات چل رہے ہیں۔ اب تک ایک بھی اچھا کام کا مظاہرہ نہ کرنے والی حکومت بتدریج اپنی نااہلی کا ثبوت دے گی تو یہ تاثر عام ہوجائے گا کہ تمام خرابیاں جو پچھلی حکومت میں تھیں موجودہ حکومت نے انہیں مزید تقویت دی ہے۔ گھری اور سچی باتیں اچھی تو نہیں لگتیں مگر خرابی بیسیار سے بچنے کیلئے بہتر ہیکہ مودی حکومت کچھ راحت کے کام کرکے دکھائے۔