مولانا عبداﷲ بن احمد قرموشی نوراﷲ مرقدہُ
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے صحابہ کرام نے پوچھا ’’یا رسول اﷲ یہ قربانیاں کیا ہیں؟‘‘ ۔ اس کی حقیقت کیا ہے اور اﷲ نے قربانی کی عبادت کیوں رکھی ؟ ۔ حضور نے ارشاد فرمایا ’’قربانیاں تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ‘‘ ۔ قوم عرب کو یہ افتخار حاصل ہے کہ وہ سلسلہ نسب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے جاکر ملتے ہیں۔ سیدنا اسحاق علیہ السلام کی اولاد کو بنو اسرائیل کہا جاتا ہے اور سیدنا اسمعیل علیہ السلام کی اولاد کو بنو اسمعیل کہا جاتا ہے ۔ حضور کا سلسلہ نسب حضرت اسمعیل علیہ السلام سے جاملتا ہے اس لئے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا ’’تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تمہارے باپ کی سنت ہے ‘‘ ۔ قربانی دینے والا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کو جانے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری دنیا دشمن ہوگئی ، آپ کو آگ میں جھونک دینے کی تیاری کی گئی حاکم وقت آپ کا دشمن ہوگیا ۔ آپ نے یہ سب گوارا کرلیا لیکن خدا کی ذات میں کسی اور کو شریک کرنے سے انکار کردیا یہاں تک کہ اﷲ کے حکم پر اپنے صاحبزادہ کو قربان کرنا چاہا ، اﷲ نے اس قربانی کو دنبہ سے بدل دیا اور تاقیامت مسلمانوں کو اجر عظیم کمانے کا موقع عنایت فرمایا ۔ قربانی دینے والا قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے ’’انی وجھت‘‘ پڑھتا ہے ۔ حضرت ابراہیم کی سنت کو سمجھنا ہے تو پہلے توجیہ کو سمجھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے بعض چاند کی ، بعض تاروں کی۔ آپ نے اعلان فرمایا ’’میں ڈوبنے والوں کو خدا نہیں مانتا ، میرا خدا تو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے‘‘ ۔ پھر آپ نے فرمایا ’’میں نے اپنے رخ کو اور اپنے ارادوں کو پھیرلیا ہے اس کی جانب جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ، میں شرک کرنے والوں میں نہیں‘‘ ۔ قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو خدا کے احکام کے مطابق ڈھال لیں اور ہمارا مقصود حیات احکام خدا و رسول کے مطابق بن جائے۔ قربانی خدائے واحد تک پہنچنے کا راستہ بتاتی ہے ۔خدائے واحد کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ہے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے توحید کی اسطرح تشریح فرمائی ’’میری نمازیں تمام عالموں کا جو پروردگار ہے اس کیلئے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، میری جتنی عبادتیں ہیں وہ سب خدا کے لئے ہیں‘‘۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ’’میری کامل زندگی خدا کے لئے ہے ‘‘۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ قربانی دینے کے بعد جائزہ لیں کہ زندگی خدائے واحد کے منشاء کے مطابق گذر رہی ہے یا نہیں ۔ جانور کے حلق پر چھری چلانا آسان ہے لیکن اپنے غلط ارادوں (نفسانی خواہشات ) پر چھری چلانا بہت مشکل ہے ، قربانی دینے والا پہلے اپنے غلط ارادوں پر چھری چلائے ۔ وہ ارادے جو اﷲ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہیں ۔ اﷲ کے نام پر پہلے اپنے نفس کی قربانی دو ۔ قربانی کا جذبہ تو یہ ہے کہ اﷲ کے نام پر مال و متاع چھوڑے ۔ حرام کام چھوڑنا خدا کے نام پر قربانی دینا ہے۔ اﷲ کی رضا بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہوتی ۔ حقیقت قربانی یہ ہے کہ ہم اپنے دل میں اﷲ کی محبت کو بٹھائیں اور اس کے احکام پر چلیں۔
قربانی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ آج ہم جو جانوروں کی قربانی دے رہے ہیں اس ذبح عظیم کی یاد میں دے رہے ہیں جب اﷲ کے خلیل اپنے مولاکے حکم پر لخت جگر کے گلے پر چھری چلانے کیلئے تیار ہوگئے۔ آج ہم اپنی قربانیوں کے ساتھ اللہ کے خلیل کی قربانی کو یاد کریں ۔ اﷲ کے خلیل نے ہر آزمائش میں کھرے اترتے ہوئے دنیا کو بتلادیا کہ خدا ہی محبت کے قابل ہے ۔ قربان جائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آپ نے حکم خداوندی کی تعمیل میں اپنے فرزند کو جنگل میں چھوڑدیا۔حضرت اسمعیلؑ پلے بڑھے۔ ایک دن حضرت ابراہیم نے صاحبزادے سے کہا ’’اے بیٹے اسمعیل ! میں تمہیں خواب میں ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ‘‘ خواب میں دکھایا گیا کہ آپ اپنے لخت جگر کو ذبح کررہے ہیں۔ حضرت اسمعیلؑ نے کہا’’ اے میرے اباجان آپ وہ کام کرڈالیں جس کا آپ کو حکم ہورہا ہے ، اگر اﷲ نے چاہا تو مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ‘‘ ۔ ابراہیم علیہ السلام کے خواب کو پورا کرنے کیلئے حضرت اسمعیل ؑ تیار ہوگئے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ’’آپ ( ابراہیم ؑ) نبی ہیں اور نبی کا خواب سچا ہوتا ہے ‘‘ ۔ آپ والد کے حکم پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے قربان ہونے کیلئے تیار ہوگئے۔ حضرت اسمعیلؑ اﷲ کے خلیل کے بیٹے ہیں قربان ہونے کیلئے قربان گاہ پہونچے اور والد سے عرض کیا ’’آپ آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے تاکہ میرا چہرہ دیکھکر آپ کا جو عزم ہے اس میں لچک نہ آجائے ۔ ہاں ! اپنے دامن کو بھی سمیٹ لینا کہ کہیں میرے خون کے چھینٹوں سے آپ کا دامن خون آلود نہ ہوجائے ‘‘ ۔ والدین کے حد و ادب کا اپنے اس عمل سے رہتی دنیا تک حضرت اسمعیل علیہ السلام نے یہ درس دیا کہ ’’ باپ ذبح کرنا چاہے تو ذبح ہوجانا اور اس وقت بھی یہ خیال رکھنا کہ باپ کا دامن داغدار نہ ہو ‘‘۔خدا کے نام پر قربان ہونے کا جذبہ جس کے دل میں ہو وہی مومن ہے۔ باپ بیٹے کے اس عمل کو خدائے واحد دیکھ رہا تھا اللہ نے اسمعیل علیہ السلام کے بدلہ جنت سے دنبہ اتارا اور ارشاد فرمایا ہم نے اس ذبح عظیم کے بدلے میں اسماعیل کو بچالیا اور اپنے خلیل کی اس ادا کو ایسا پسند فرمایا کہ اس ذبح عظیم کی یاد میں قیامت تک لاکھوں جانور کٹتے رہیں گے ۔ حضور اکرم نے فرمایا ’’ایام قربانی میں اﷲ کے نزدیک کوئی عمل اتنا محبوب نہیں ، جتنا کہ اس کے نام پر خون بہانا (یعنی قربانی کرنا ) پسند ہے ‘‘۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو ! تم جو قربانی دیتے ہو اس کا خون ، گوشت اﷲ کو نہیں پہنچتا ۔ اﷲ کا خوف جو تمہارے دل میں ہے وہ جذبہ اﷲ کو پہنچتا ہے ‘‘۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئے اور ہمیں چاہئے کہ خدا کی رضا کیلئے زیادہ سے زیادہ گوشت غریبوں کو دیں ۔ جس جانور میں گوشت زیادہ ہو اُس کی قربانی دیں۔ حضور اکرم کے ارشادات اور ابوالانبیاء کی ایسی عظیم الشان سیرت سننے کے بعد بھی آج کے دور کے بعض مسلمان مالی محبت میں یہ دلائل پیش کرتے ہیں کہ وہ صاحب استطاعت نہیں ، حالات سازگار نہیں وغیرہ وغیرہ جب کہ واضح ارشاد ہیکہ ہر صاحب استطاعت کیلئے قربانی ضروری ہے ۔ جو شخص خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ خسارہ میں نہیں رہتا وہ تو خالص نفع کماتا ہے کیونکہ اﷲ عزوجل اسے دس گنا زیادہ اجر عطا فرماتا ہے ۔ حضور اکرم نے فرمایا ’’جو گنجائش رکھتا ہے اور قربانی نہیں دیتا ، جسے انبیاء کی سنت سے محبت نہیں تو اسے عیدگاہ آنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قربانی دینے کا جذبہ پیدا کریں ۔ جو خدا کی راہ میں قربانی دیتا ہے اس کے گھر میں برکت ہوتی ہے ، خدا رحمتوں کا نزول فرماتا ہے ۔ آسمان کے فرشتے اس کے جذبے کو دیکھتے ہیں ۔ قربانی کا وقت قبولیت دعا کا وقت ہے ۔ قربانی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ دعا کرتا رہے اپنی عاجزی کا اظہار کرے اور کہے کہ مولاقربانی تیرے سامنے رکھی ہوئی ہے ، تو غنی ہے مولا میری اس قربانی کو قبول فرما ۔ تیرے حبیب اور ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا واسطہ ، سیدناابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واسطہ ہماری قربانی قبول فرما ۔ اگر ہم قربانی دیتے وقت اﷲ سے رابطہ رکھیں تو اﷲ تبارک و تعالیٰ ابوالانبیاء کی قربانی کے طفیل ، حضور اکرم کی قربانی کے طفیل ہماری قربانی قبول فرمائیگا ۔ اگر کسی کے پاس استطاعت نہیں ہے تو وہ دل چھوٹا نہ کرے کیونکہ حضور اکرم نے دو جانوروں کی قربانی دی ہے۔ ایک جانور اپنی اور اپنی آل و اولاد کیلئے اور دوسری قیامت تک کی امت کے غریب غرباء کیلئے ذبح کیا۔ ہماری قربانی حق تعالیٰ قبول کرے یا نہ کرے لیکن خاتم الانبیاء کی جانب سے امت کے غریب غرباء کیلئے کی گئی قربانی یقینا قبول ہوچکی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہیکہ اللہ ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اللہ کے حکم پر مرمٹنے والا بنائے۔ آمین ۔ (خطبات قرموشی سے اقتباس)