خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

نوجوان نسل ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، قوم و ملت کیلئے ان کو ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس طرح کسان کھیت و کھلیان، باغ و گلستان کی جی جان سے نگہداشت کرتے ہیں،اس کی حفاظت کیلئے دن کا چین اور رات کا آرام جیسا کچھ قربان کرتے ہیںوہ اظہر من الشمس ہے، صحیح نگہداشت نہ ہوسکے تو پھر کھیتوں سے نفع حاصل ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی، نہ ہی گلشن میں گل کھل سکتے ہیں اور نہ اس کی رنگ و بو سے دل و نگاہ کوفرحت مل سکتی ہے نہ مشام جاں اس کی خوشبو سے معطر ہوسکتے ہیں۔ یہی کچھ حال انسانوں کا ہے، انسانوں کے ہاں پیدا ہونے والے ننھے و معصوم بچے بھی ان نوخیز کلیوں کے مماثل ہوتے ہیں جن کی خوب دیکھ ریکھ کرنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے، ان کے ماںباپ کی مثال بھی گویا ایک باغبان کے سی ہے کہ انکو بھی ان بچوں کو پروان چڑھانے کیلئے سخت جدوجہد کرنا اور اپنے راحت و آرام کو قربان کر نا پڑتا ہے۔

سات سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک کا زمانہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اپنی اولاد و نسل کی تربیت کا یہ وہ سنہرا دور ہوتا ہے جس میں عمدہ تعلیم و تربیت کے ذریعہ ان کو نکھارا اور سنوارا جاسکتا ہے، بچوں کی عمر کے اس حصہ میں ان کی صحیح ڈھنگ سے تربیت نہ کی جائے اور ان کو یونہی چھوڑ دیا جائے توپھر ان سے نہ صرف کوئی اچھی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیںبلکہ اس کے برے نتائج خاندان و قوم کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ ماں کی گود جہاں اس کی گود میں پلنے والی اولاد کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے وہیں باپ کی شفقت و محبت اور خاص طور پر سات سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کا درمیانی حصہ باپ کی خصوصی توجہ و نگہداشت کا متقاضی ہوتا ہے، اسی لئے قانونِ اسلامی میں اس کی اہمیت کو تسلیم کیاگیا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اگر کوئی نااتفاقی کی وجہ جدائی کا موقع ہو تو لڑکے سات سال کی عمر تک ماں کے زیرپرورش رہینگے، لیکن جیسے ہی سات سال کے ہوجائیں تو وہ اپنے باپ کی کفالت میں آجائیںگے(شامی،باب الحضانۃ)۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اس عمر میں ماں کے محبت بھرے پیار کے ساتھ باپ کی مشفقانہ سرپرستی ضروری ہوجاتی ہے، باپ میں چونکہ مرد ہونے کی وجہ اللہ نے رعب و داب رکھا ہے اس لئے بوقت ضرورت وہ ضروری تنبیہ کرکے تادیب کرسکتا ہے۔لڑکیوںکو بلوغ تک ماں کی سرپرستی ضروری ہوتی ہے اسلئے وہ اس کی زیرپرورش رہینگی لیکن باپ کی شفقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا، ان کی بنیادی ضروریات کا تکافل ہر حال میں اس پر لازم رہیگا لیکن بلوغ کے بعد ان کی پرورش کی ذمہ داری اور انکے نکاح وغیرہ کا انتظام باپ پر عائد ہوجائیگا۔
اس تناظر میں نئی نسل خواہ وہ لڑکے ہوں کہ لڑکیاں ان کی تعلیم و تربیت اور انکی اونچی اٹھان میں ماںباپ کے رول کی اہمیت کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ اللہ کے پیارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: ’’والد کی طرف سے اپنی اولاد کیلئے اچھی تعلیم وتربیت سے بہتر وافضل اور کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا‘‘(ترمذی۱۸۷۵)۔

ہندوستان اور خاص طور پر حیدرآباد میں امت مسلمہ کے نوجوان لڑکے ایک طرف تعلیم میں بہت پیچھے ہیںاور لڑکیاں تعلیم کے میدان میں اس وقت لڑکوں سے سبقت لیجارہی ہیںتو دوسری طرف روزگار کے سلسلہ میں مرد بیرون ملک مقیم ہیں۔ باپ کی غیرموجودگی کی وجہ نوجوان نسل تعلیم وتربیت سے بے بہرہ رہنے کے ساتھ غیراخلاقی مشاغل میں مصروف ہے۔ پرانے شہر میں نسبتاًنوجوان بچے غلط راستہ پر چل پڑے ہیں، سیکل موٹروں کی تیزرفتاری کے مقابلے، جوے اور سٹہ بازی، نشہ کا استعمال، فٹ پاتھ پر راتوں کے وقت اوقات گذاری، ٹی وی،فون، انٹرنیٹ وغیرہ کا بے موقع و بے محل اور غلط استعمال نوجوانوں کی کردارکشی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، چنانچہ سٹہ بازی کے تحت ’’اسٹریٹ فائٹ کلچر‘‘ بھی عروج پر ہے، کشتیوں، کک باکسنگ، جوڈو کراٹے اور ڈبلیو ڈبلیو ای فائٹ جیسے جان لیوا مقابلوں میں سٹہ بازی کے ساتھ امت کے نوجوان سرگرم عمل ہیں اور یہ سلسلہ رات تمام جاری رہنے کی اطلاعات ہیں، نوجوانوں کی شب باشی گھروں کے بجائے اب سڑکوں اور گلی کوچوں میں ہونے لگی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِن نوجوانوں کے نام تعلیم میں نمایاں کامیابی کی وجہ سرفہرست ہوتے لیکن افسوس! یہ تو نہ ہوسکا لیکن ان کی غیراخلاقی و غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ ان کے نام پولیس کی ڈائری میں سرفہرست درج ہورہے ہیں۔ پرانے شہر کے ساتھ نئے شہر کے فیشن ایبل علاقے بھی جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، سیکل موٹروں کے ریسس اور موٹر گاڑیوں کی تیزرفتاری جو جان لیوا ہوسکتی ہے وہ بھی پانچ تا پچاس ہزار روپئے سٹہ پر جاری رہنے کی اطلاع ہے، ایسی ہی ایک ریسلنگ طرز کی لڑائی میں ملت کے ایک نوجوان کی جان ضائع ہوگئی ہے، ٹی وی چینلس پر جو منظر دکھائے گئے ہیں اور جو اخبارات کی زینت بنے ہیں وہ بڑے اندوہناک ہیں، اس طرح کے شیطانی کھیل جو جان لیوا بھی ہیں اور اخلاق سوز بھی، اس کے تدارک پر خصوصی غوروخوض کی ضرورت ہے۔

بداخلاقی و بدتہذیبی کے اس کلچر پر سخت روک لگنی چاہئے،ماںباپ کی بڑی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر سخت نگرانی رکھیں، مغرب بعد ان کو گھر سے باہر جانے نہ دیں اور جو تعلیمی مصروفیات کی وجہ تعلیم گاہوں میں رہنے سے دن میں باہر رہتے ہیں ان پر بھی کڑی نظر رکھیں، گھر کے ماحول کو دیندارانہ بنائیں، ٹی وی اور انٹرنیٹ اور موبائیل وغیرہ کا ناروا استعمال نہ خود کریں نہ اپنے گھربار کے کسی فرد کو اس کی اجازت دیں، نوخیز لڑکوں و لڑکیوں کو اس سے دور رکھیں، بچوں کی تریت کیلئے قربانی دینا پڑے تو باہر کی ملازمتوں کو بھی خیرباد کہیں اور اپنے شہر میں جائز روزگار تلاش کریں۔
اسلام اور ایمان کے تقاضوں کی تکمیل سے غفلت، خدا بے خوفی و ناعاقبت اندیشی اور آخرت فراموشی کے نتیجہ میں مسلم معاشرہ غیراخلاقی صورتحال سے دوچار ہے، اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ماں باپ کیساتھ امت کے دردمندوں اور بہی خواہوں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔
نیک اور صالح بزرگان دین و نوجوانان ملت کی صحبت اور ان کی ہمنشینی بھی بھٹکے ہوئے نوجوانوںکی اصلاح میں تیربہدف ثابت ہوسکتی ہیں۔
الغرض اس پر خصوصی توجہ نوجوانوں کو صالح بنا سکتی ہے اور ان کی نوجوانی بے داغ رہ سکتی ہے اور اس کی وجہ اچھے نتائج و ثمرات خاندان، قوم و ملک کو مل سکتے ہیں۔