خدا دے قناعت بڑی چیز ہے

اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی کو غریب بناتا ہے اور کسی کو امیر و دولتمند۔ وہ شخص خوش قسمت ہوتا ہے جس کو راحت و سکون سے زندگی گزارنے کے لئے خداداد کم سے کم نعمت و دولت نصیب ہو۔ اسی پر راضی رہنے کو قناعت کہتے ہیں۔ لیکن انسان کی فطرت میں حرص اور لالچ بلا کی ہوتی ہے۔ اُسے کتنی ہی دولت کیوں نہ ملے اس کی لالچ ختم ہی نہیں ہوتی عارف رومیؒ قناعت اور حرص کا تقابل کرتے ہوئے فرماتے ہیں   ؎
از قناعت ہیچکس بے جاں نشد    وز حریصی ہیچکس سلطاں نشد
کوئی شخص قناعت سے بے جان نہیں ہوتا یعنی کمزوری اور احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتا اور حرص کے سبب کوئی شخص سلطان نہیں ہوجاتا   ؎
عاقل اندر بیش و نقصاں ننگرد    زانکہ ایں ہر دو چوسیلے بگذرد
عقلمند انسان نفع و نقصان سے خوف زدہ نہیں ہوتا اور کمی و بیشی کے سیلاب کو آنی جانی چیز سمجھتا ہے۔
یعنی ایک دانشمند کمی و بیشی یا نفع و نقصان  سے اس حد تک خائف نہیں ہوتا جو عقل و حواس میں فتور پیدا کردے یا اعمال و اخلاق کو اعتدال سے دور کردے۔ بلکہ جس طرح سمندر میں مد و جزر یعنی موجوں کا اُتار چڑھائو ہوا کرتا ہے۔ تو سیلاب چڑھتا ہے اور اترتا بھی ہے اسی طرح عاقل شخص کمی و بیشی کے سیلاب کو بھی آنی جانی چیز سمجھکر اسے قبول کرلیتا ہے مگر اس سے خائف نہیں ہوتا   ؎
گربریزی بحررا در کوزئہ    چند گنجد قسمتے یک روزئہ
اے مخاطب  ! اگر تو حرص کے سبب سمندر کو ایک کوزہ میں بھرنا چاہے گا تو اس کوزہ میں ایک ہی دن کا حصہ آسکے گا اس لئے حرص کا نتیجہ ذہنی انتشار اور دلی سکون کے فقدان کے سوا اور کچھ نہیں   ؎
کوزئہ چشمِ حریصاں پُر نہ شد    تاصدف قانع نہ شد پُردُر نہ شد
حریصوں کی آنکھ کبھی نہیں بھرتی یعنی کبھی سیر نہیں ہوتی ہیں۔ جب تک صدف قانع نہیں ہوتا وہ موتی سے نہیں بھرتا۔
صدف دراصل سیپی کو کہتے ہیں جس سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ وہ بارش کا صرف ایک قطرہ لیتے ہی اپنا منہ بند کرلیتی ہے۔ صدف کی اس قناعت کا انجام یہ ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے پانی کے اسی ایک قطرہ کو قیمتی موتی بنادیتا ہے۔ اگر وہ ایک قطرہ پر قناعت نہ کرے تو پانی اس کے منہ سے باہرآنے لگے گا اور وہ موتی سے بھی محروم ہوجائے گا۔
درس بصیرت:
۱    خدا کی عطا کردہ تھوڑی ہی دنیاوی نعمت پر راضی رہنے اور آخرت کی نعمتوں کے خیال سے دنیا کی مزید حرص نہ کرنے کا نام قناعت ہے۔
۲    قناعت میں بڑی خیر و برکت ہوتی ہے اور زندگی اطمینان سے بسر ہوتی ہے۔
۳    اس کے برخلاف حرص اور لالچ میں مبتلاہوکر مزید نعمتوں کی خواہش کرنے سے زندگی میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور اطمینان غائب ہوجاتا ہے
۴    ہزاروں خواہشوں کی تکمیل کے بعد بھی نفس مطمئن نہیں ہوتا۔ خواہشات نفسانی کی کوئی حد ہی نہیں۔
۵    ایک عقلمند شخص نعمتوں میں کمی و زیادتی یا نفع و نقصان کا کوئی غم نہیں کرتا بلکہ اس کو سمندر کے اُتار چڑھائو کی طرح قدرتی سمجھ کراسی پر قناعت اور اکتفا کرتا ہے۔
۶    صدف قناعت سے کام لیتے ہوئے بارش کے صرف ایک قطرہ کو لیتے ہی اپنا منہ بند کرلیتی ہے۔ جو آگے چل کر موتی بن جاتا ہے۔ ورنہ منہ سے سب پانی نکل جائے گا اور وہ موتی سے بھی محروم ہوجائے گا۔
۷    صدف سے قناعت کا بہترین سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔