یو کے جی کے لیے ٹیاب کی خریدی پر زور ، نصاب تعلیم کو یکساں بنانے کے اقدامات میں رکاوٹ
حیدرآباد۔27 اپریل (سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے خانگی تعلیمی اداروں پر کی جانے والی سختی کا کوئی اثر تعلیمی اداروں کے انتظامیہ پر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے بلکہ خانگی اسکول انتظامیہ کی من مانی کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے ۔ حکومت تلنگانہ خانگی اسکول انتظامیہ کی من مانی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اس ناکامی کی ذمہ داری محکمہ تعلیم میں موجود بد عنوانیاں قرار دی جا رہی ہیں۔ خانگی اسکولوں میں نصاب تعلیم کو یکساں بنانے کی سرکاری کوششوں کو خانگی ناشرین کی جانب سے عدالت میں دی گئی عارضی شکست کے بعد بھی اگر محکمہ تعلیم اسی روش پر بر قرار رہتا ہے تو ایسی صورت میں حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ حکومت کے سخت اقدامات کے اعلانات پر عدم عمل آوری کے نتیجہ میں اب خانگی اسکول تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ عصری ٹکنالوجی کے نام پر طلبہ کو ٹیاب ساتھ رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ حصول علم کیلئے عصری سہولتوں سے استفادہ کیا جا سکے۔ بعض اسکول انتظامیہ یو کے جی طلبہ کیلئے ٹیاب کو ضروری قرار دینے لگے ہیں اور 8تا 10ہزار روپئے میں یہ ٹیاب اسکول کے ذریعہ فروخت کیئے جا رہے ہیں۔ عصری طرز تعلیم کے نام پر کیئے جانے والے ان اقدامات کا بوجھ راست اولیائے طلبہ و سرپرستوں پر پڑ رہا ہے لیکن اس کے طویل مدتی اثرات بچوں پر بھی پڑسکتے ہیں۔ کئی اسکولوں کی جانب سے اختیار کردہ اس منصوبہ کی مخالفت سرپرستوں کی جانب سے کی جانے لگی ہے لیکن اسکول انتظامیہ عصری مسابقتی دور میں بچوں کے پیچھے رہ جانے کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے سرپرستوں کو بچوں کے مستقبل کے متعلق خوفزدہ کر رہے ہیں۔ شہر حیدرآباد کے نامور اسکولوں کی جانب سے ٹیاب کے لزوم کی کوششوں کی مخالفت والدین دراصل بچوں کے آنکھوں کی امکانی خرابی اور ٹیاب میں بڑھتی دلچسپیوں کے سبب کر رہے ہیںلیکن شائد اسکول انتظامیہ کو ان معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے
اور نہ ہی وہ ان امورپر غور کرنا چاہتے ہیں۔ اسکولوں میں جاری صورتحال کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ اسکول انتظامیہ آسان تعلیم کے طریقہ کار اختیار کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔جن اسکولوں میں ٹیاب کے لزوم پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ان اسکولوں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ہفتہ میں صرف تین یوم ٹیاب کے ذریعہ بچوں کی درس و تدریس کا عمل ہوگا جبکہ مابقی ایام کے دوران انہیں روایتی نصاب پڑھایا جائے گا لیکن ماہرین امراض چشم کا کہنا ہے کہ کام کے ایام میں طلبہ ٹیلی ویژن ‘ کمپیوٹر ‘ اسمارٹ فون ‘ ٹیاب سب ملاکر جملہ ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ دیکھیں ۔ ڈاکٹر ہدایت اللہ ماہر امراض چشم نے اس مسئلہ پر بتایا کہ بڑھتی عمر میں ان الکٹرانک اشیاء کا استعمال نہ صرف بینائی کو کمزور کرنے کا موجب بنتا ہے بلکہ اس سے ترچھاپن آنے کے خدشات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعطیلات میں چوں کہ بچے روایتی نصابی کتب سے دور رہتے ہیں انہیں ایک تا دو گھنٹے ان الکٹرانکس کے مشاہدے کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن اس سے زیدہ مشاہدہ نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 7تا 9سال کی عمر کے دوران بینائی فروغ پاتی ہے۔ اسی لئے 10تا12سال کی عمر کے بعد ہی ان اشیاء کا استعمال درست قرار دیا جا سکتا ہے۔حکومت کو چاہیئے کہ حفظان صحت کی بنیاد پر اسکولوں کو اس بات کی ہدایات جاری کرے کہ وہ ڈیجیٹل تعلیمی نظام کو اسی حد تک محدود رکھیں جو حد قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت کی جانب سے مقرر کی گئی ہے۔