خانگی اسکولوں سے ہی درسی کتب یونیفارم اسٹیشنری کی زبردستی خریدی کے لیے طلباء پر زور

تعلیمی ادارے تجارتی مراکز میں تبدیل ، محکمہ تعلیم کی خاموشی سے ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے
حیدرآباد۔3نومبر(سیاست نیوز) خانگی تعلیمی ادارے تجارتی مراکز میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اورا ن اداروں میں طلبہ کے استعمال کی اشیا ء کی جبری فروخت کے ذریعہ اولیائے طلبہ و سرپرستوں کو لوٹا جا رہا ہے لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے کارپوریٹ خانگی اسکولوں کی ہراسانی پر اختیار کردہ خاموشی کے سبب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کا کارپوریٹ اسکولوں کی جانب سے خوب ناجائز فائدہ اٹھایا جانے لگا ہے اور محکمہ تعلیم کے عہدیدار خاموش ہیں۔ اسکولوں میں درسی کتب ‘ یونیفارم‘ اسٹیشنری وغیرہ فروخت کرنے پر حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندی کے باوجود خانگی اسکولوں میں یہ اشیاء فروخت کی جاتی ہیں اور ان اشیاء کی فروخت کے لئے کئے جانے والے انتظامات سے محکمہ تعلیم کے عہدیدار خود بھی واقف ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے ۔ جاریہ تعلیمی سال کے دوران چند خانگی کارپوریٹ اسکولوں نے نئے طریقہ سے تعلیمی سال کے درمیان اولیائے طلبہ کو لوٹنے کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے اولیائے طلبہ وہ سرپرستوں کو اس بات کا پابند بنایا جانے لگا ہے کہ اسکول کی جانب سے فروخت کئے جانے والے اسکول کے نام کے بیاگ خریدے جائیں کیونکہ اسکول نے ان بیاگس کے استعمال کو یونیفارم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تعلیمی سال کے درمیان کئے گئے اس فیصلہ کے متعلق ان اسکولوں کے ذمہ داروں دریافت کرنے پر ان کا کہنا ہے کہ اسکول اپنے فیصلہ خود کرنے کا مجاز ہے اس پر ایسا کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا جاسکتا جو اس کے یونیفارم اور تعلیمی معیار کو متاثر کرتا ہے ۔ اسکول کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ یکساں بیاگ ہونے کے سبب طلبہ کے یونیفارم اور بیاگس میں یکسانیت ہوگی اسی لئے یہ بیاگ اسکول کی جانب سے فروخت کئے جارہے ہیں۔ ریاستی حکومت کے جی او 91کے مطابق اسکولو ںمیں فروخت کی جانے والی اشیاء کی خریدی کا طلبہ پر لزوم عائد نہیں کیا جاسکتا ان احکامات پر عمل آوری میں سختی کے بعد اسکولوں نے بیرون اسکول کتاب گھروں میں اپنی درسی کتب کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا اوران سے بھاری کمیشن لیا جانے لگا لیکن اب جبکہ آدھا تعلیمی سال مکمل ہوچکا ہے تو اسکولوں کے ذمہ داروں نے چین سے لائے گئے بیاگس(اسکولی بستوں) پر اپنے اسکولوں کے نام ثبت کرواتے ہوئے انہیں اسکول یونیفارم کے طور پر فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو بازار میں کہیں دستیاب نہیں ہوتے اور اولیائے طلبہ و سرپرستوں کو بحالت مجبوری اسکول سے ہی یہ خریدنے پڑتے ہیں جو اسکول انتظامیہ من مانی قیمتوں میں فروخت کررہاہے۔