خانگی اسکولس میں کتب اور یونیفارم کے نام من مانی رقمی لوٹ مار

محکمہ تعلیم خاموش تماشائی، ناشرین کے نصاب سے طلبہ و اولیائے طلبہ اُلجھن کا شکار
حیدرآباد 5 اپریل (سیاست نیوز) شہر کے خانگی اسکولوں میں کتابوں اور یونیفارم کی فروخت کے ذریعہ اسکول انتظامیہ بھاری آمدنی حاصل کررہے ہیں اور کئی اسکولوں میں من مانی کتب بچوں کے تعلیمی نصاب میں شامل کی جارہی ہیں۔ جس پر محکمہ تعلیم کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ حکومت کی عدم توجہی اور ضلع انتظامیہ کی خاموشی کے باعث ناشرین نصابی کتب اور خانگی تعلیمی ادارہ جات دونوں ہی عوام پر بوجھ عائد کرنے میں مصروف ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی کے لئے ضلع ایجوکیشنل آفیسر یا محکمہ تعلیم کے پاس کوئی مؤثر میکانزم نہیں ہے جس کے سبب خانگی اسکول انتظامیہ کی من مانی کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے اسکول کے ذریعہ نصابی کتب کی فروخت کے کاؤنٹرس کا نظام چل رہا ہے اور اسکولوں میں ایسے نصاب کو شامل کیا جانے لگا ہے جو کسی اور جگہ دستیاب نہ ہو۔ ناشرین اسکول انتظامیہ کو پُرکشش ترغیبات کے ذریعہ اپنی کتب نصاب میں شامل کرنے کے لئے راضی کرتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے 25 تا 35 فیصد تک کمیشن بھی دیا جاتا ہے اور یہ بوجھ راست طلباء و اولیائے طلبہ پر عائد ہونے لگتا ہے۔ ریاست کے بیشتر اضلاع میں اسکول انتظامیہ اس اسکیم سے استفادہ حاصل کررہے ہیں اور اولیائے طلباء پر بوجھ میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر اسکول انتظامیہ اپنی مرضی کے کتب نصاب میں شامل کرنا چاہئے تو اسے اختیار ہے لیکن ان کا کتب کو اسکول سے ہی خریدنے کے لئے یا پھر کسی مخصوص دکان سے خریدنے کے لئے پابند بنایا جانا درست نہیں ہے۔ ضلع انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اسکولوں کی کشادگی سے قبل اس سلسلہ میں سرکیولر جاری کرتے ہوئے تمام خانگی اسکول انتظامیہ کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ اپنے نصاب میں شامل کی گئی کتابوں کے نام اور ناشرین کا نام نوٹس بورڈ پر آویزاں کرے تاکہ اولیائے طلبہ جماعت واری اساس پر کتابوں کے نام حاصل کرتے ہوئے بازار سے ان کتابوں کو خرید سکیں۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں چلائے جانے والے اسکولوں میں کارپوریٹ طرز کے ادارہ جات تو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اپنے خود کے شائع کردہ کتب نصاب میں شامل کررہے ہیں اور اسے معیار کا نام دیا جانے لگا ہے جبکہ ان کی اشاعت ان ہی کے طلبہ میں فروخت ہونے سے ان اداروں کی آمدنی میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔ یہی صورتحال یونیفارم کی بھی ہے۔ اسکول انتظامیہ اسکول کی جانب سے فروخت کئے جارہے یونیفارمس کی خریدی پر اولیائے طلبہ کو مجبور کررہے ہیں اور اولیائے طلبہ اسکول انتظامیہ کی بات ماننے کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران خانگی اسکولوں میں چلائی جانے والی تجارتی سرگرمیوں کے خلاف متعدد مرتبہ ضلع انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کے عہدیداروں سے شکایات کی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ مسٹر نٹراجن گلزار آئی اے ایس جس وقت حیدرآباد ضلع کلکٹر تھے اُنھوں نے شہر میں تعلیمی اداروں کی حالت میں بہتری کے لئے اقدامات کئے تھے لیکن ان کے تبادلہ کے بعد حالات پھر سے معمول پر آچکے ہیں اور کوئی بھی تعلیمی ادارے میں کتب کی فروخت پر کوئی روک نہیں ہے۔ ضلع انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کی جانب سے حرکت میں آتے ہوئے اولیائے طلبہ پر عائد کئے جارہے ہیں اضافی بوجھ کو دور کرنے کے اقدامات ناگزیر ہیں چونکہ اسکولوں میں جاری اس طرح کی تجارتی سرگرمیوں سے اولیائے طلبہ عاجز آچکے ہیں۔