خاتون کربلا

حضرت سیدہ زینب کبریٰ ؓ

حضرت سیدہ زینب کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جمادی الاولیٰ سنہ ۵ھ میں پیدا ہوئیں۔ نائبۃ الزہرا، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضا، شجاعہ، فصیحہ و بلیغہ، زاہدہ و فاضلہ آپ کے مشہور القاب ہیں۔ آپ کی پرورش اور تربیت کا آغاز حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے زیر سایہ ہوا۔ ایک دن عہد طفلی میں حضرت سیدہ زینب قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھیں، بے خیالی میں سر سے اوڑھنی اتر گئی۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا نے دیکھا تو ان کے سر پر اوڑھنی ڈالی اور فرمایا ’’بیٹی! اللہ کا کلام ننگے سر نہیں پڑھتے‘‘۔
حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی رحلت کے وقت حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر تقریباً چھ برس تھی۔ چھ ماہ کے بعد شفیق والدہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی وصال ہو گیا۔ ان حادثات نے ننھی حضرت سیدہ زینب کو سخت صدمہ پہنچایا۔ شفیق نانا اور والدہ محترمہ کی جدائی سے حیدر کرار رضی اللہ تعالی عنہ کے سارے بچے غم و الم کی تصویر بن گئے۔ شیر خدا نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام خود سنبھالا۔ حضرت علی مرتضی جیسا معلم ہو تو شاگردوں کی خوش بختی کا کیا ٹھکانہ، تھوڑی ہی مدت میں سارے بچوں کے دل و دماغ علم و حکمت کے خزانوں سے معمور ہو گئے۔ حضرت سیدہ زینب نے بھی اپنے جلیل القدر والد کے علم اور دیگر اوصاف سے خوب استفادہ کیا، حتی کہ زہد و تقویٰ، عقل و فراست، حق گوئی و بے باکی، عفت و عصمت اور عبادت و شب بیداری میں حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے مثل ہو گئیں۔
آپ کے چہرہ مبارک پر ناناجان صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال تھا، جب کہ حرکات و سکنات اور چال ڈھال میں وقار حیدری نمایاں تھا۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علم و فضل میں قریش کی کوئی لڑکی آپ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی تھی۔ فاتح خیبر حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ بے مثال خطیب تھے، آپ اپنے خطبات و تقاریر میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہایا کرتے تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے عظیم والد کی فصاحت و بلاغت اور زور بیان ورثہ میں ملا۔
ذی الحجہ سنہ ۶۰ھ میں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اہل کوفہ کی دعوت پر اپنے اہل و عیال اور جاں نثاروں کی ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ مکہ مکرمہ سے کوفہ کا عزم کیا تو حضرت زینب بھی اپنے دو فرزندوں کے ہمراہ اس مقدس قافلہ میں شامل ہو گئیں۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ اگرچہ خود اس قافلہ میں شریک نہ ہوسکے، تاہم انھوں نے حضرت زینب اور اپنے بچوں کو حضرت امام حسین کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔
۱۰؍ محرم الحرام سنہ ۶۱ھ کو کربلا کا دلدوز سانحہ پیش آیا، جس میں حضرت سیدہ زینب کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے، بھتیجے، بھائی اور ان کے متعدد جاں نثار شامی فوج سے مردانہ وار لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے شہید ہو گئے۔ اس موقع پر حضرت سیدہ زینب نے جس حوصلہ، شجاعت اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۹؍ اور ۱۰؍ محرم کی درمیابی شب کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار صاف کی جانے لگی تو آپ نے چند اشعار پڑھے۔ اس وقت حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہ بے تاب ہو گئیں اور رو روکر کہنے لگیں: ’’اے کاش! آج کا دن دیکھنے کے لئے میں زندہ نہ ہوتی۔ پہلے میرے نانا جان، میری ماں، میرے باپ اور میرے بھائی حسن سب داغ مفارقت دے گئے۔ اے بھائی! اللہ کے بعد ہمارا سہارا اب آپ ہی ہیں، ہم آپ کے بغیر کیسے زندہ رہیں گے‘‘۔ اس وقت حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا ’’اے زینب! صبر کرو‘‘۔