حین حیات مکمل تصرف کا اختیار

حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ، صدر مفتی جامعہ نظامیہ
سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر کے متعلقین میں پہلی زوجہ اور انکے بطنی چار لڑکے اور ایک لڑکی اور دوسری بیوی اور انکے بطنی دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔ بکر کی جائداد انکی زر خرید کچھ گنٹے اراضی اور ایک مکان ہے۔ اور ان پر کثیر رقم کا قرض بھی باقی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں جائداد فروخت کرکے قرض ادا کرنا اور اپنے متعلقین میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
ایسی صورت میں ورثاء کے درمیان تقسیم کے متعلق شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب :صورت مسئول عنہا میں مالکِ جائداد بکر کی حین حیات انکی جائداد میں انکے کسی بھی وارث کا کو ئی حق وحصہ نہیں، کیونکہ وارث کا حق بعد وفات مورث ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔ اگر بکر اپنی زندگی ہی میں ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو بعد ادائی قرض اپنے لئے جو مناسب سمجھے رکھ لیکر بقیہ اپنے تمام ورثہ میں سب کو برابر برابر بلالحاظ لڑکا، لڑکی یا کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو تو کسی کو کم کسی کو زائد دے سکتے ہیں۔ البتہ کسی بھی وارث کو بالکلیہ محروم نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ لیکن جسکو دیا جائے وہ مالک ہوجائیگا۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد ۵ کتاب الفرائض میں ہے : وھل ارث الحی من الحی أم من المیت ؟ ألمعتمد الثانی۔ اور اسی کتاب کی جلد ۴ کتاب الھبۃ میں ہے : وفی الخانیۃ لابأس بتفضیل بعض الأولاد فی المحبۃ لأنھا عمل القلب و کذا فی العطایا اِن لم یقصد بہ الاضرار واِن قصدہ سوی بینھم یعطی البنت کالابن عند الثانی وعلیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز وأثم۔ فقط واﷲ أعلم
تلقین میت
سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میت کے سینہ پر کلمۂ طیبہ اور بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھنا شرعًا درست ہے یا نہیں ؟
۲۔ کیا میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر سینہ کے برابر ہاتھ رکھ کر تلقین کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ ایک مسجد کا امام اس کو غلط کہہ رہا ہے ؟
جواب :شرعًا مسلمان میت کے غسل کے بعد پیشانی پر انگلی سے تسمیہ شریف {بسم اﷲ الرحمن الرحیم} اور سینہ پر کلمۂ طیبہ ’’لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ لکھنا درست ہے۔ اور اس کی فضیلت و برکت معروف ہے : درمختار جلد اول باب الصلاۃ الجنائز ص ۶۶۸ میں ہے : أوصی بعضھم أن یکتب فی جبھتہ و صدرہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ففعل، ثم رؤی فی المنام فسئل فقال لما وضعت فی القبر جاء تنی ملائکۃ العذاب فلما رأوا مکتوبا علی جبھتی بسم اﷲ الرحمن الرحیم قالوا أمنت من عذاب اﷲ اور ردالمحتار جلد اول ص ۶۶۹ میں ہے : نقل بعض المحشین عن فوائد الشرجی ان مما یکتب علی جبھۃ المیت بغیر مداد بالأصبع المسبحۃ بسم اﷲ الرحمن الرحیم وعلی الصدر لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ وذلک بعد الغسل قبل التکفین۔ اھ
۲۔شرعًا مسلمان میت کی تدفین کے بعد قبر پر سینہ کے محاذی ہاتھ رکھتے ہوئے، میت سے خطاب کرکے اﷲ تعالیٰ کے رب اور اسلام کے دین اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے وغیرہ کی تلقین کرنا درست ہے۔ اس عمل سے روکنا یا اس کو غلط کہنا درست نہیں۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز ص ۶۲۸ میں ہے : {ولا یلقن بعد تلحیدہ} واِن فعل لاینھی عنہ ، وفی الجوھرۃ انہ مشروع عند أھل السنۃ ویکفی قولہ یافلان ابن فلان اذکر ما کنت علیہ وقل رضیت باﷲ ربا و بالاسلام دینا وبمحمد {صلی اﷲ علیہ وسلم} نبیا۔
فقط واﷲ أعلم