مولانا غلام رسول سعیدی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے جھرمٹ میں بیٹھے تھے۔ ناگاہ اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے اور جب کافی دیر تک نہ آئے تو ہم لوگ پریشان ہو گئے۔ آپ کو تلاش کرنے کا خیال آیا۔ سب سے پہلے میں اٹھا اور بنی نجار کے باغ کے قریب پہنچا۔ میرا خیال تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں تشریف فرما ہیں۔ باغ کے دروازے بند تھے، میں نے اس میں داخلہ کے لئے ایک نالہ کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہ پایا، پس میں نے اپنا جسم سکیڑا اور نالہ کے ذریعہ باغ میں داخل ہوا۔ اندر پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔
غور فرمائیے کہ باغ کی چار دیواری کے باہر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کیسے یقین ہو گیا کہ حضورﷺ باغ میں تشریف فرما ہیں اور ایسا یقین کہ اور کوئی راستہ نہ ملا تو نالہ کے ذریعہ ہی داخل ہو گئے؟۔ لگتا ہے باغ کے باہر انھیں خوشبوئے رسالت آرہی تھی اور ان کے دل و دماغ میں جب مشام نبوت کی مہک پہنچی تو انھیں یقین ہو گیا کہ سرکار باغ کے اندر تشریف فرما ہیں۔ پھر باغ کے اپنے پھلوں اور پھولوں کی خوشبو مغلوب ہو گئی تھی اور سرکار کی خوشبو ان پر غالب تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی جنس کے بالمقابل نہیں آئے، مگر اس جنس کے کمالات مغلوب ہو جاتے اور سرکار کے انوار اس پر غالب رہتے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سورج کے بالمقابل کھڑے نہیں ہوئے، مگر حضورﷺ کا نور سورج کے نور پر غالب رہتا۔ اسی طرح کبھی چاند کے سامنے نہیں آئے، مگر چاند کی روشنی پر حضورﷺ کی روشنی غالب رہتی۔ آپﷺ متوسط قد تھے، مگر جب کبھی لمبے قد والوں کے درمیان چلتے تو سب سے بلند نظر آتے۔ ہر جنس سے فوق، ہر نوع سے اعلی، مسجد اقصیٰ میں انبیاء کرام کے امام ہوئے، سدرہ پہنچے تو فضائی پرواز کے شہباز حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی پیچھے رہ گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ تجلیات الہیہ کی سب سے بلند جلوہ گاہ عرش الہی بھی نیچے رہ گیا اور حضورﷺ اس سے بھی اوپر تشریف لے گئے۔ زمان و مکان کو شرف ظرفیت بخشا، لیکن ایک مقام ایسا آیا کہ زمان و مکان کی قیود پیچھے رہ گئیں اور سرکار ان قیود سے آگے نکل گئے۔
عقل و خرد میں یہ طاقت کہاں کہ ان کی حقیقت کو سمجھ سکے، وہم و گمان میں یہ وسعت کب کہ ان کے مقام کو پاسکے، ماہیت اور حقیقت کی بحث چھوڑیں، آئیے مقام مصطفیﷺ کے جو پہلو عقل کے سامنے اور عظمت رسولﷺ کے جو زاویے ہماری نظر میں ہیں، انھیں اہل دل کے سامنے پیش کردیں۔
حضورﷺ آئے تو نظام عالم میں انقلاب آیا، دلوں کی سوچ بدلی، عمل کے اطوار بدلے۔ جن کا کردار ننگ انسانیت تھا، ان کی پاکبازیوں پر قدسیوں کو رشک آنے لگا۔ وہ کیا آئے کہ چمنستان وجود میں خزاں ندیدہ بہار آئی۔ عرفان کی کلیاں چکٹیں، ایمان کے پھول مہکے۔ بندے کو خدا کا وہ قرب حاصل ہوا، جس کا نہ تصور تھا نہ گمان۔ رحمت خداوندی کی ایسی بارش ہوئی کہ دنیائے وجود کا ہر ذرہ شاداب ہو گیا۔
ان کے آنے سے اصول اور پیمانے بدلے، رنگ و نسل کا امتیاز اٹھا۔ انسانیت کے ہر طبقہ کو ہدایت ملی۔ اللہ اللہ یہ ان کا مرتبہ ہے کہ وہ رخ بدلیں تو قبلہ بدل جائے، وہ ہاں کہہ دیں تو احکام فرض ہوں، منع کردیں تو حرمت لازم ہو۔ ادب اتنا کہ ان کی آواز پر آواز اونچی نہیں ہوسکتی۔ نام لے کر بلانے کی اجازت نہیں۔ دل پر کسے اختیار ہوتا ہے، مگر ان کے فیصلہ کے خلاف دل میں بھی ناگواری ہو تو ایمان نہیں رہتا۔
ان کا مقام کوئی کیسے سمجھے، فرشتوں کو حیرت ہے کہ جن کے ہاتھوں کی ایک جنبش سے مہر و ماہ گردش میں آجاتے ہیں، جو خاک کی مٹھی اٹھاکر پھینکیں تو چہرے بگڑ جائیں۔ وہ کبھی طائف کی وادی میں مظلومیت سے پتھر کھاتے ہیں، کبھی جبل احد کی گھاٹیوں میں اپنے چہرۂ مبارک سے لہو پونچھتے نظر آتے ہیں۔ نیاز کا عالم یہ ہے کہ ساری رات مصلی پر کھڑے روتے گزر جاتی ہے اور مقام ناز یہ ہے کہ بدر کے میدان میں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: ’’آج یہ جماعت ہار گئی تو قیامت تک تیری پرستش نہ ہوسکے گی‘‘۔ کبھی چٹائی پر لیٹتے ہیں، جس کے نقش جسم مبارک پر ابھر آتے ہیں اور کبھی سرعرش مسند آرا ہوئے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپﷺ کے سینہ مبارک میں وحی اتارتے ہیں اور پھر وہی حضرت جبرئیل آپﷺ سے اسلام اور ایمان کی باتیں سیکھتے ہیں۔ زمان و مکان کی قیود اور عالم رنگ و بو میں آئے، پھر یکایک ان تمام تعینات اور قیودات سے نکل کر لامکاں جا پہنچے۔ عقل حیران ہے انھیں کیا سمجھے، وہ مختار کل ہیں یا عجز سراپا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فیض دینے والے ہیں یا ان سے فیض یافتہ۔ عرشی ہیں یا فرشی، مجرد ہیں، مقید ہیں، ناز ہیں، نیاز ہیں، کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
حیراں ہوں میرے شاہ کہ کیا کیا کہوں تجھے