سروا سکھشا ابھیان رپورٹ میں انکشاف، حکومت کے دعوے کھوکھلے ثابت
حیدرآباد۔6مئی (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کی جانب سے متعدد دعوے کئے جا رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہاہے کہ حیدرآباد کو عالمی شہر میں تبدیل کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور شہر حیدرآبا دکی مجموعی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ہر شعبہ میں خدمات انجام دی جا رہی ہے اور ایسی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو کہ شہر اور شہریوں کی ترقی کو یقینی بنائے ۔ حکومت کی جانب سے ریاست میں تعلیم کے فروغ کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے سلسلہ میں بھی یہ دعوی کیا جا رہاہے کہ حکومت تلنگانہ ملک میں سب سے بہترین اصلاحات کی راہ پر گامزن ہے جبکہ اگر سروا سکھشا ابھیان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو تلنگانہ کے تمام اضلاع میں سب سے زیادہ ترک تعلیم کا رجحان شہر حیدرآباد میں پایا جا رہا ہے اور اس ترک تعلیم کے رجحان میں حیدرآباد سر فہرست ہے۔ تعلیمی سال 2016-17 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو حیدرآباد ریاست کے دیگر اضلاع میں سر فہرست ہے جہاں طلبہ کی سب سے زیادہ تعداد ترک تعلیم کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں تعلیمی سال 2016-17 کے دوران 4133 طلبہ نے تعلیم کا سلسلہ ترک کیا ہے جس میں 2149 لڑکے اور 1984لڑکیا ںشامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق ریاست تلنگانہ میں اس تعلیمی سال کے دوران 14ہزار 739 طلبہ نے اسکولی تعلیم ترک کی ہے جن میں 7 ہزار 647لڑکے اور 7092 لڑکیاں شامل ہیں۔سروا سکشھا ابھیان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد کے پڑوسی ضلع رنگاریڈی میں صرف 246 طلبہ نے ترک تعلیم کی ہے جن میں 112 لڑکے اور 134لڑکیا ں ہیں اور یہی صورتحال دیگر اضلاع کی بھی ہے جبکہ حیدرآباد میں ترک تعلیم کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔بتایاجاتا ہے کہ ترک تعلیم کرنے والے 50 فیصد سے زیادہ طلباء اپنے گھروں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں مدد کرنے والے ہیں اسی لئے انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے دن بھر کام کرنا شروع کردیا ہے جس کے سبب وہ سلسلہ تعلیم جاری نہیں رکھ پائے۔ غیر سرکاری تنظیموں کے ذمہ داران کا کہناہے کہ سرواسکھشا ابھیان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے حیدرآباد کی تعلیمی صورتحا ل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن سرکاری ادارہ کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ پر مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سرکاری اداروں کی جانب سے اعداد شمار تخفیف کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو اس تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ غیر سرکاری تنظیموں کا ماننا ہے کہ سرکاری اسکولو ںمیں سہولتوں کی بہتری اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے ساتھ اساتذہ کے تقرر کو یقینی بنائے جانے کی صورت میں ترک تعلیم کے رجحان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔