!حیدرآبادی تہذیب ماضی کی طرف لوٹنے لگی

پلاسٹک بیاگس پر پابندی کے بعد کپڑے کی تھیلیاں گھروں سے دکان تک لے جانے کا رواج زور پکڑنے لگا
حیدرآباد 31 جولائی (سیاست نیوز) حیدرآبادی تہذیب تیز نہ سہی لیکن بتدریج اپنے ماضی کی طرف لوٹتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ایک جانب دنیا بھر کے علاوہ ہندوستان کی اہم ریاستوں مہاراشٹرا اور تلنگانہ میں پلاسٹک اور اس سے بنی اشیاء پر پابندی کے بعد جہاں حکام کی جانب سے سختی کی جارہی ہیں، وہیں دکانداروں کی جانب سے پلاسٹک بیاگس فراہم نہ کرنے کی وجہ سے عوام اپنے گھروں سے کپڑے یا دیگر طرز کی تھیلیاں ساتھ لے جانے پر مجبور ہیں۔ حیدرآباد میں چند دہے قبل تک بھی یہ رواج تھا کہ خواتین گھروں میں کپڑوں اور ٹاٹوں کی مدد سے ہر سائز کی تھیلیاں سیتی تھیں اور کمسن بچے ان میں گھریلو سودا لاتے دکھائی دیتے تھے اور اب پلاسٹک بیاگس پر عائد کی جانے والی پابندی کے بعد حیدرآباد کے علاوہ جڑواں شہر سکندرآباد کے بھی محلے اور گلیوں میں کپڑے کی تھیلیاں بچوں کے ہاتھوں میں دکھائی دے رہی ہیں جبکہ گھر کے ذمہ دار افراد بھی گھروں سے ہی تھیلیاں لے جا رہے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے بموجب حیدرآباد میں روزانہ 450 تا 500 ٹن پلاسٹک کی اشیاء کچرے کی نظر ہوتی ہیں اور جھیلوں میں پالیتھین کے بیاگس، پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر پلاسٹک کی اشیاء ڈالی جاتی ہیں۔ حکومت تلنگانہ نے حالانکہ جون 2016ء میں 50 سے زائد مائیکرونس کے حامل بیاگس پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ عوامی شعور بیدار کرنے مختلف مقامات و خاص کر گوشت کی دکانات پر پوسٹرس بھی لگائے تھے جس پر لکھا تھا کہ پلاسٹک بیاگ کی بجائے گھر سے تھیلیاں یا ٹفن باکس ساتھ لائیں ۔ پلاسٹک سے حیدرآباد کو مکمل پاک کرنے حکومت کی شعور بیداری کے علاوہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ کھلے مقام پر پلاسٹک جلانے کی پاداش میں 25 ہزار کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے نیز گھروں میں پلاسٹک کی فاضل اشیاء کیلئے علحدہ ڈبہ بھی فراہم کیا گیا لیکن عوام کی جانب سے گھر میں کچرے کی نکاسی کیلئے دو ڈبوں کی پالیسی پر عمل نہیں ہوا حالانکہ کچرا اٹھانے والے افراد نے جہاں پلاسٹک کی اشیاء کیلئے علحدہ ڈبہ نہ ہو وہاں سے کچرہ کی نکاسی سے انکار بھی کیا تھا۔ ماہرین کے بموجب موثر پالیسی و سخت قانون نہ ہونے کی وجہ سے حیدرآباد میں پلاسٹک کے بیاگس پر مکمل پابندی عائد نہیں ہوپارہی ہے لیکن مہاراشٹرا کی خبروں کے بعد دکانداروں کی جانب سے پلاسٹک بیاگس کی عدم فراہمی کا رجحان بڑھنے کے ساتھ سودا اور دیگر اشیاء کی خریداری کیلئے گھروں سے ہی کپڑے کی تھیلیاں لے جانے کا رواج پھر ایک مرتبہ عروج پر ہے۔