واشنگٹن ؍ اقوام متحدہ ۔ 9 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ براک اوباما نے آج وزیراعظم عراق حیدرالعبادی سے ٹیلیفون پر دولت اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کی نئی حکمت کی کوشش پر تبادلہ خیال کیا اور انہیں مبارکباد بھی پیش کی۔ وائیٹ ہاؤز سے جاری کردہ بیان کے بموجب انہوں نے وزیراعظم عراق حیدرالعبادی کی ایک نئی وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی کوشش کی ستائش کی اور امریکہ کی مدد کی اہمیت واضح کرتے ہوئے عراق سے خواہش کی کہ وہ بھی اس اہمیت کو سمجھے گا اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کرے گا۔ حالیہ کارروائیوں کے بعد جو دولت اسلامیہ سے لاحق خطرہ سے نمٹنے کیلئے کی گئی ہیں، ان کی ستائش کرتے ہوئے اوباما نے ٹیلیفون پر عہد کیا کہ وہ عراق کے تمام طبقات اور علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں سے تعاون کرتے ہوئے دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں عراق کی صلاحیتوں کو مستحکم کریں گے۔ دونوں قائدین نے اتفاق کیا کہ نئی حکومت جلد ہی عراقی عوام کی جائز آرزوؤں کی تکمیل اور شکایات کے ازالہ کیلئے کام کرے گی۔ دریں اثناء وزیر خارجہ امریکہ جان کیری نے عراق میں نئی حکومت کے قیام کو ایک بڑا سنگ میل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عراقی قائدین اپنے ملک پر اسی بصیرت اور احساس کے ساتھ حکومت کریں جس سے نئی حکومت اولین مقام پر پہنچ سکے۔
دریں اثناء اوباما انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے انسداد دہشت گردی فنڈ کیلئے پانچ عرب امریکی ڈالر کی امداد منظور کرنے کی خواہش کی تاکہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کی دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوسکے۔ براک اوباما نے ماہ مئی میں 5 ارب امریکی ڈالرس پر مشتمل فنڈ کا اعلان کیا تھا تاکہ عالمگیر سطح پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اس اقدام میں اب مزید رفتار پیدا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دولت اسلامیہ کی جانب سے سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے، جس نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے اور بے رحمی سے ماضی قریب میں 2 امریکی صحافیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اقوام متحدہ سے موصولہ اطلاع کے بموجب معتمدین عمومی بانکی مون نے نئی حکومت عراق کے قیام کو ’’مثبت اقدام‘‘ قرار دیا، لیکن سیاست دانوں پر زور دیا کہ وہ فوری وزیر دفاع اوروزیر داخلہ کا انتخاب کریں۔ عراقی ارکان پارلیمان نے کل 24 وزراء پر مشتمل نئی کابینہ کو منظوری دی ہے لیکن اہم صیانتی عہدے ہنوز مخلوعہ ہیں۔ نئے وزیراعظم حیدرالعبادی پر سخت بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف وسیع تر تائید حاصل کرنے کیلئے سب کو ساتھ لے کر حکومت تشکیل دیں۔