حیدرآباد ۔ 13 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز ) : پرانے شہر کے عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے معاملہ میں حکومت کے کسی بھی محکمہ کو دلچسپی نہیں ہے بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ پرانے شہر کو شہر کے مرکزی علاقہ کی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود بھی عصری سہولتوں کے معاملہ میں حیدرآباد کے اس علاقہ کو محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جب بینک کے اے ٹی ایم کے دور کا آغاز ہوا اس وقت بھی پرانے شہر میں اے ٹی ایم مراکز کے قیام کے لیے متعدد مرتبہ توجہ دہانی کروانی پڑی اور بعض بینکوں کے صارفین کی جانب سے بنکوں کو کھاتے بند کروالینے کی دھمکی بھی دینی پڑی تھی ۔ لیکن یہ معاملہ بنکو کا تھا اس لیے ایسا ممکن ہوسکا اور اب پرانے شہر کے بیشتر مقامات پر اے ٹی ایم مراکز موجود ہیں لیکن سرکاری سہولتوں کے معاملہ میں اگر دیکھا جائے تو عوام حکومت پر راست دباؤ ڈالنے کے موقف میں نہیں ہوتے بلکہ ان کے منتخبہ نمائندوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کو عصری سہولتوں سے آراستہ کرنے کے اقدامات کے لیے حکومت کو مجبور کرے ۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے پر اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پرانا شہر حیدرآباد کا انتہائی گنجان آبادی والا علاقہ ہے اور اس علاقہ میں سرکاری سہولتوں کی فراہمی بھی بے حد ضروری ہے چونکہ آبادی کے اعتبار سے یہ علاقہ کافی اہمیت کا حامل ہے لیکن شائد حکومت کو اس علاقہ سے بغض ہے یا پھر عوام نے جن نمائندوں کو منتخب کیا ہے انہیں علاقہ کی ترقی کا احساس نہیں ہے ۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر شائد عوام خود مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے بغیر سوال کئے زندگی گزار لینے کا ذہن بنا چکے ہیں ۔ شہر حیدرآباد میں ریجنل پاسپورٹ آفس کی جانب سے 3 پاسپورٹ سیوا کیندر کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہ تینوں پاسپورٹ سیوا کیندر نئے شہر میں واقع ہیں جب کہ پرانے شہرکے عوام کی بڑی تعداد کو بھی پاسپورٹ حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن انہیں پی یس کے کی سہولت کی فراہمی کے متعلق بالکلیہ طور پر خاموشی اختیار کی گئی ہے اور تاحال کوئی بھی اس سلسلہ میں جواب دینے کے موقف میں نہیں ہے کہ آیا کیوں پی یس کے کے قیام کے سلسلہ میں پرانے شہر کو نظر انداز کیا گیا ؟ جب کہ پرانے شہر کے عوام بھی ہندوستانی شہری ہیں اور انہیں بھی پاسپورٹ کی ضرورت پیش آتی ہے اس علاقہ کے عوام کو ان تک سہولتیں پہنچانے میں تقریبا ہر محکمہ ناکام ہوتا رہا ہے لیکن اب جب کہ شہر کے طول و ارض میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کے باوجود اس علاقہ کو نظر انداز کیا جانا افسوسناک ہے ۔ شہر میں 12 کیلو میٹر کے رقبہ میں تین پاسپورٹ سیوا کیندر امیر پیٹ ، بیگم پیٹ اور ٹولی چوکی میں قائم کئے گئے لیکن پرانے شہر کے تقریبا 15 کیلومیٹر کے رقبہ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پرانے شہر کے عوام کو سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے یا پھر عوام میں شعور نہیں ہے کہ وہ ان سہولتوں کو اپنے علاقوں میں حاصل کریں ۔
پاسپورٹ دفتر کے ذرائع کے بموجب حیدرآباد میں قائم کئے گئے تین پاسپورٹ سیوا کیندر صرف حیدرآباد کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان تین پی یس کے پر حیدرآباد ، رنگاریڈی ، میدک ، نلگنڈہ ، ورنگل ، محبوب نگر ، کرنول کے درخواست گذاروں کو بھی وقت فراہم کیا جارہا ہے ۔ اگر وزارت خارجہ کی جانب سے پرانے شہر حیدرآباد و رنگاریڈی کے لیے ایک مکمل پاسپورٹ سیوا کیندر نہیں تو کم از کم منی پاسپورٹ سیوا کیندر کا قیام عمل میں لایا جائے تو ایسی صورت میں نہ صرف پرانے شہر کے عوام کو سہولت ہوگی بلکہ دلسکھ نگر ، حیات نگر ، یل بی نگر ، بالا پور ، شاستری پورم کے علاوہ شہر کے نواحی علاقوں میں آباد ہورہی نئی بستیوں کے عوام بھی اس سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے بموجب ریجنل پاسپورٹ آفس نے ضلع کریم نگر میں منی پاسپورٹ سیوا کیندر کو منظوری دی ہے اور مجوزہ پاسپورٹ سیوا کیندر میں اسی ماہ خدمات کا آغاز ہونے کا امکان ہے ۔ اگر اسی طرح حیدرآباد و رنگاریڈی کے لیے مخصوص سیوا کیندر پرانے شہر میں شروع کیا جاتا ہے تو عوام کو اس سے بے حد فائدہ حاصل ہوگا ۔ واضح رہے کہ ریجنل پاسپورٹ آفس حیدرآباد کو ملک بھر میں بہترین خدمات کی انجام دہی میں دوسرا مقام حاصل ہے اور مصروفیت کے اعتبار سے بھی حیدرآباد ریجنل پاسپورٹ آفس ممبئی کے بعد سب سے زیادہ مصروف ترین تصور کیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلع کریم نگر سے تعلق رکھنے والے منتخبہ عوامی نمائندوں نے وزارت خارجہ سے نمائندگیوں کے ذریعہ ضلع کریم نگر کے لیے مخصوص منی پاسپورٹ سیوا کیندر حاصل کیا ہے اور ضرورت کے اظہار کے ذریعہ کسی بھی مقام پر ایسا ہوسکتا ہے بشرطیکہ عوام اور عوامی نمائندے اس سلسلہ میں دلچسپی لیں ۔۔