کئی عمارتیں تباہی کے دہانے پر ، حکومت کے اعلانات و تیقنات اکارت ثابت
حیدرآباد۔27جنوری(سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے شہر کو تاریخی وتہذیبی ورثہ کے طور پر ترقی دینے کے متعلق اعلانات کئے جا رہے ہیں لیکن تاریخی عمارتوں کے تحفظ میں حکومت کی عدم دلچسپی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت تاریخی عمارتوں کے تحفظ سے زیادہ ان کی تباہی کی منتظر ہے۔ حکومت تلنگانہ نے ریاستی حکومت کے تحت چلائے جانے والے سرکاری دواخانہ عثمانیہ کی تاریخی عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن تاریخی وتہذیبی ورثہ کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والوں کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کے بعد ان اعلانات پر خاموشی اختیار کرلی گئی لیکن دواخانہ عثمانیہ کی تاریخی عمارت کے تحفظ کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ عمارت کو یوں ہی نظر انداز کرتے ہوئے منہدم ہونے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ 1921 میں تعمیرکی گئی دواخانہ عثمانیہ کی اس عمارت کو حکومت تلنگانہ نے جولائی 2015میں منہدم کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس کے بعد جب تاریخی عمارتوں کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والوں نے اس عمارت کے تحفظ کیلئے مہم شروع کی تو حکومت کی جانب سے اسی سال ماہ اکٹوبر میں دواخانہ عثمانیہ کی اس قدیم تاریخی عمار ت کو منہدم کرنے کے فیصلہ سے دستبرداری اختیار کرلی لیکن اس عمار ت کو منہدم ہونے سے بچانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ جس حالت کو دیکھ کر عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اسی حالت میں عمارت کو چھوڑ دیا گیا ۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس عمارت کی تزئین نو یا آہک پاشی کے متعلق حکومت نے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ اس عمارت میں جو چھت سے گچی گرنے لگی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ عمارت کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہے اسی لئے اس عمارت کے ازخود منہدم ہونے کا انتظار کیا جائے تاکہ حکومت کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ تاریخی عمارت کے ازخود منہدم ہونے کا انتظار اس لئے کیا جا رہا ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں حکومت کو انہدام کیلئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ دواخانہ عثمانیہ کی قدیم تاریخی عمارت جسے شہر حیدرآباد میں موجود فن تعمیر کی شاہکار عمارتوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے اس عمارت کی مکمل تباہی کا انتظار کیا جانا حکومت کی جانب سے تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے اقدامات سے لاپرواہی کی بدترین مثال ثابت ہورہی ہے۔ چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ ریاست تلنگانہ بالخصوص شہر حیدرآباد کی تہذیبی روایات کی دہائی دیتے رہتے ہیں اور سلطنت آصفیہ کے حکمرانوں کی خدمات کی ستائش کرتے رہتے ہیں لیکن دواخانہ عثمانیہ کی قدیم عمارت بھی شہر حیدرآباد کی تہذیبی روایات کی علامات اور سلطنت آصفیہ کے حکمرانوں کے رفاہی کاموں کی اعلی ترین مثال ہے اسی لئے انہیں اس عمارت کو منہدم ہونے کیلئے چھوڑنے کے بجائے ماہرین سے مشاورت کے بعد اس کی حفاظت کے اقدامات کی ہدایت دینی چاہئے۔پرانے شہر میںموجود تاریخی عمارتوں میں چارمینار‘ مکہ مسجد‘ دارالشفاء‘ شفا خانہ یونانی ‘ ہائی کورٹ کے علاوہ عثمانیہ دواخانہ کی عمارت ہی ایسی قدیم عمارت ہے جو قابل دید ہے۔اس عمارت کو منہدم ہونے سے بچانے کے اقدامات نہ کئے گئے تو ایسی صورت میں تیزی سے مخدوش ہورہی یہ عمارت کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہے۔