حیدرآباد کی ترقی پر سیما آندھرا قائدین کے دعوے مسترد، نظام حیدرآباد پر تنقید تاریخ سے لاعلمی کا ثبوت

حیدرآباد۔/23جنوری، ( سیاست نیوز) ریاستی قانون ساز کونسل میں تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کے دوران کانگریس اور تلگودیشم کے اقلیتی ارکان نے سیما آندھرا قائدین کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا کہ حیدرآباد کی ترقی ان کی مرہون منت ہے۔ اقلیتی ارکان نے سیما آندھرا قائدین کی جانب سے نظام حیدرآباد کو تنقید کا نشانہ بنانے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ریاست حیدرآباد کے آندھرا پردیش میں انضمام کے وقت حیدرآباد ترقی یافتہ شہر تھا۔ کانگریس کے رکن قانون ساز کونسل محمد علی شبیر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے تلنگانہ مسودہ بل کی تائید کی اور حیدرآباد کے بارے میں بعض شرائط عائد کئے جانے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہاکہ حیدرآباد اور اس کے لاء اینڈ آرڈر پر تلنگانہ کے چیف منسٹر کو مکمل اختیارات حاصل ہونے چاہیئے۔ انہوں نے 10برسوں تک حیدرآباد کو مشترکہ دارالحکومت کی مدت کم کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ تلنگانہ تحریک خالص عوامی تحریک ہے جس میں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں نے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ سیما آندھرا حکمرانوں کی مسلسل ناانصافیوں کے سبب تلنگانہ عوام نے علحدہ ریاست کی مانگ کی ہے۔ ہر شعبہ میں تلنگانہ عوام کو نظرانداز کردیا گیا یہی وجہ ہے کہ عوام نے قربانیوں کے ذریعہ تحریک کو نئی جِلا بخشی۔ انہوں نے کاماریڈی میں کشٹیا نامی کانسٹبل کی خودکشی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے گھر والوں کی اپیل کے باوجود کشٹیا نے خود کو گولی مارلی۔ اس کا کہنا تھا کہ علحدہ ریاست تلنگانہ بیوی بچوں سے زیادہ عزیز ہے کیونکہ علحدہ ریاست کی تشکیل میں گھر والوں کا تابناک مستقبل یقینی ہوپائے گا۔ محمد علی شبیر نے متحدہ آندھرا کے حق میں سیما آندھرا علاقوں میں کی گئی تحریک کو بناوٹی قراردیتے ہوئے کہا کہ سیما آندھرا کے سرمایہ داروں نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیما آندھرا علاقوں کی پسماندگی کیلئے خود اس علاقے کے قائدین ذمہ دار ہیں۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی اور صدر تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ 9ڈسمبر 2009ء کو مرکزی حکومت کی جانب سے علحدہ تلنگانہ کے حق میں فیصلہ سے قبل کانگریس کے سیما آندھرا قائدین اور چندرا بابو نائیڈو نے تلنگانہ کی تائید کی تھی لیکن مرکزی وزیر داخلہ چدمبرم کے اعلان کے ساتھ ہی موقف تبدیل کرلیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تلگو عوام دو علحدہ ریاستوں میں بہتر طور پر ترقی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے سیما آندھرا ارکان سے اپیل کی کہ وہ تشکیل تلنگانہ کی مخالفت ترک کرتے ہوئے سیما آندھرا علاقے کے مسائل پیش کریں اور تلنگانہ قائدین اس ریاست کی ترقی میں تعاون کیلئے تیار ہیں۔

محمد علی شبیر نے کہا کہ سیما آندھرا قائدین دراصل تاریخ سے لاعلم ہیں اور ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا نواب میر عثمان علی خاں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قطب شاہی، مغلیہ اور پھر سلطنت آصفیہ میں حیدرآباد کی ترقی کیلئے غیر معمولی اقدامات کئے گئے۔ حیدرآباد میں آج جو بھی تاریخی عمارتیں اور عوامی سہولت سے متعلق تعلیمی اور فلاحی ادارے موجود ہیں وہ نظام حیدرآباد کی دین ہیں۔ آندھرا پردیش کی تشکیل کے وقت حیدرآباد ایک ترقی یافتہ شہر تھا جبکہ سیما آندھرا کے 13اضلاع انتہائی پسماندہ تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی، مختلف ہاسپٹلس اور تاریخی عمارتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ نظام پر تنقید کرنے سے قبل سیما آندھرا قائدین کو نظام کا احسان مند ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ سیما آندھرا قائدین اور سرمایہ دار تلنگانہ کے وسائل لوٹنے کیلئے حیدرآباد آئے، انہیں علاقے کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انہوں نے تلنگانہ مسودہ بل کی چیف منسٹر کی جانب سے مخالفت کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ چیف منسٹر نے پارٹی کے اجلاسوں میں ریاست کی تقسیم کے فیصلہ کی تائید کی لیکن سیما آندھرا میں عوامی تائید کے حصول کیلئے اب مخالفت کررہے ہیں۔ تشکیل تلنگانہ کو یقینی قرار دیتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ صدر کانگریس سونیا گاندھی اپنے فیصلہ پر اٹل ہیں اور پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں تلنگانہ بل کی منظوری یقینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سیما آندھرا قائدین کی لاکھ مخالفتوں کے باوجود تلنگانہ ریاست کی تشکیل یقینی ہوگی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں ایک شعر پڑھا:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

٭٭ تلگودیشم کے رکن قانون ساز کونسل محمد سلیم نے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے تلنگانہ ریاست کی تشکیل کی تائید کی تاہم کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ریاستوں کے ساتھ یکساں طور پر انصاف کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نظام حیدرآباد پر سیما آندھرا قائدین کی تنقیدیں قابل مذمت ہیں کیونکہ حیدرآباد میں تعلیمی، طبی، فلاحی اور دیگر عوامی سہولتوں کی فراہمی کا سہرا نظام حیدرآباد کے سر جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ نظام حیدرآباد کے بعد حیدرآباد کو ترقی دینے میں چندرا بابو نائیڈو کا نام تاریخ میں لکھا جائے گا۔ چندرا بابو نائیڈو کے دورِ حکومت میں حیدرآباد انفارمیشن ٹکنالوجی کے مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی ایر پورٹ، آوٹر رنگ روڈ اور دیگر ترقیاتی کام تلگودیشم دور حکومت میں انجام دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے اپنے طویل دور حکمرانی میں تلنگانہ کی ترقی کو فراموش کردیا تھا۔ محمد سلیم نے کہا کہ تلنگانہ میں اقلیتوں کی تعداد 16فیصد ہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں ان کی حصہ داری 2فیصد سے کم ہے۔ حیدرآباد میں سرکاری ملازمتوں میں سیما آندھرا کا حصہ 80فیصد ہے۔ انہوں نے نظام حیدرآباد کی جانب سے تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں، راج بھون، ہائی کورٹ، اسمبلی، جوبلی ہال، عثمانیہ یونیورسٹی، ذخائر آب اور دیگر کارناموں کا ذکر کیا۔ محمد سلیم نے کہا کہ آج کے حکمراں نظام حیدرآباد کی عوامی اور فلاحی خدمات کی ایک بھی مثال پیش نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ 50برسوں سے زاید تک تلگوعوام مل جل کر زندگی بسر کرتے رہے اور ریاست کی تقسیم کے بعد بھی دونوں علاقوں کے عوام کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم ہونے چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی تقسیم سے عوام کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ دونوں علاقوں کیلئے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔تلگودیشم رکن نے تلنگانہ کی پسماندگی کیلئے سیما آندھرا قائدین اور حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ سیما آندھرا حکمرانوں نے اقلیتوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کو بھی نظرانداز کردیا تھا۔ انہوں نے اوقافی جائیدادوں کی تباہی کیلئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ کانگریس دور حکومت میں اوقافی جائیدادیں بڑی کمپنیوں کو فروخت کردی گئیں۔ اس کے برخلاف عازمین حج کیلئے حج ہاوز کی تعمیر اور راست انٹر نیشنل فلائیٹ کا آغاز چندرا بابو نائیڈو کا کارنامہ ہے۔اسی دوران کونسل میں ٹی آر ایس رکن قانون ساز کونسل محمد محمود علی نے آصف سابع میر عثمان علی خاں کے دورحکومت کو حیدرآباد کا سنہری دور قرار دیا۔ وہ کل قانون ساز کونسل میں آندھراپردیش تنظیم جدید بل پر جاری مباحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 1956ء میں قیام آندھراپردیش سے قبل ہی نظام حیدرآباد نے شہر حیدرآباد کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ یہاں عالمی معیار کی بنیادی سہولتیں میسر تھیں۔ دواخانوں اور تعلیمی اداروں کا جال بچھا تھا۔ محمود علی نے کہا کہ اگر نظام کا دور تاریک ہوتا اور وہ عوام میں غیرمقبول تھے تو ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے انہیں راج پرمکھ کیوں بنایا۔ ٹی آر ایس رکن نے کہا کہ چند قائدین تاریخ کو توڑمروڑ کر پیش کررہے ہیں۔ حقیقت میں ریاست آندھراپردیش کے قیام سے مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ۔ 1956ء میں نئی ریاست کے قیام کے بعد تلگو کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ تلگو کو سرکاری زبان قرار دیئے جانے سے 30,000 سے زائد اردو داں افراد ملازمتوں سے محروم ہوگئے۔ لینڈ سیلنگ ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کو اراضیات سے محروم کردیا گیا۔ وقف بورڈ کو مفلوج کرتے ہوئے لاکھوں ایکر اراضیات کو آندھرائی سرمایہ کاروں کو فروخت کردیا گیا۔ درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی 1654 ایکر اراضی کو لینکو ہلز وپر، انفوسس، آئی بی ایم کو فروخت کیا گیا۔ درگاہ حضرت بابا شرف الدین ؒ کی 1030 ایکر وقف اراضی کو بین الاقوامی ایرپورٹ کے حوالہ کیا گیا۔ ٹینک بینڈ کے قریب مسجد خاموشاں کی چار ایکر اراضی وائسرے ہوٹل کے حوالہ کی گئی۔ شاہی مسجد باغ عامہ کی 13811 گز کے منجملہ 3365 گز اراضی کو احاطہ اسمبلی میں شامل کیا گیا۔ ان قبضوں کو یقینی بنانے کیلئے وقف بورڈ کو غیر کارکرد بنادیا گیا۔ محمود علی نے کہا کہ ان ناانصافیوں کے ازالہ کے لئے علحدہ تلنگانہ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ قیام تلنگانہ سے علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی تباہ ہوجانے کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تلنگانہ میں تمام مذاہب کے ماننے والے شیروشکر کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ علحدہ تلنگانہ کے مطالبہ کا مقصد قدرتی وسائل، حکومت کی اسکیموں اور ترقی میں اپنا حق حاصل کرنا ہے، جس کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے شرائط کے بغیر حیدرآباد اور مسلمانوں کو مکمل حقوق کی فراہمی کے ساتھ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے بل کی تائید کرنے کا اعلان کیا۔