حیدرآباد میں بارش کی تباہ کاریوں سے واضح ہوگیا ہے کہ اس شہر کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں نے شہر کو بری طرح سے نقصان پہونچایا ہے بلکہ ایک معنی میں یتیم بنادیا ہے! ٹی آر ایس قائدین نے بھی اقتدار سے پہلے اور بعد میں اس شہر کو ترقی دینے کے کئی بلند بانگ دعوے کئے ۔ حال ہی میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ایک لاکھ کروڑ روپئے کے خرچ سے شہر کی ترقی کا اعلان کیا تھا ۔ شہر کے بلدی ادارہ پر بھی ٹی آر ایس کے کارپوریٹرس کا راج ہے ۔ چند گھنٹوں کی بارش نے شہریوں کو یہ احساس دلادیا کہ ان کی پریشانیوں اور مسائل پر دھیان دینے والا کوئی نہیں ہے ۔ وہ ہمیشہ اپنی کھلی آنکھ سے اپنے قائد منتخب کرتے رہے لیکن سیاستداں شکاری بن کر نشانہ بدلتے رہے ۔ بارش سے ہونے والی تباہ کاریوں اور عوام کی پریشانیوں کو قومی الکٹرانک میڈیا نے بھی بری طرح نظرانداز کردیا جبکہ حال ہی میں ہندوستان کے تجارتی شہر ممبئی کی بارش کا میڈیا نے پل پل نوٹ لے کر قومی سطح پر اس کی تشہیر کی جبکہ حیدرآباد میں بھی پیر کی شام سے رات تک ہونے والی بارش تباہ کن تھی ۔ حکومت اور بلدی نظم و نسق کی کوتاہیوں کی قلعی کھولدینے والی اس بارش پر الکٹرانک میڈیا خاموش رہا تو بلدی عملہ کے علاوہ شہر کے تمام بلدی حلقوں کی نمائندگی کرنے والوں کی نااہلیت پر عوام برہمی کا اظہار کرتے رہے ۔ انھیں یہ علم ہے کہ ان کے نمائندے ان کے گنہگار ہیں لیکن وہ سنگسار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ، صرف تاریکیوں میں رات گذارکر صبح کا انتظار کرتے رہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام ان پریشانیوں اور حکومت و بلدی کارپوریٹرس کی لاپرواہیوں کا سخت نوٹ لیکر صبح ہوتے ہی اپنا شدید احتجاج درج کرواتے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ عوام نے بھی حکمرانوں اور ان کے نمائندوں کی تساہلی ، نااہلی اور مجرمانہ غفلت و کوتاہیوں کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لی ہے۔ عوام کی خاموشی کا ہی یہ برسوں سے فائدہ اٹھاتے آرہے ہیں ۔ شہر کے سلم علاقوں میں غریب عوام زیرآب مکانات میں اپنی بے بسی پر ماتم کرتے رہے ۔ بلدیہ نے یہ ثابت کردیا کہ شہر کو آنے والی کسی بھی مصیبت سے نمٹنے کے لئے وہ نااہل ہے ۔ ہرسال بلدی فنڈس میں اضافہ اور بلدیہ کو حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ کے باوجود شہر کی سڑکیں ، ڈرینج نظام ، بارش کے پانی کی نکاسی کے نالے وغیرہ کی ترقی ٹھپ ہے ۔ پانی کی نکاسی کا کوئی موثر نظام نہیں ہے ۔ بارش کی تباہ کاریوں کے کئی گھنٹوں بعد کئی علاقوں میں عام زندگی بری طرح مفلوج تھی ، حکومت نے اپنی نااہلی کو پوشیدہ رکھنے کے لئے دوسرے دن اسکولوں کو تعطیل کا اعلان کردیا ، اس سے ایک طرح وہ احتیاط سے کام لینے کی حکمت عملی اختیار کرلی ۔ عمومی طورپر حکومت کو جو بنیادی کام اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہوتی ہیں اس پر صرف کاغذی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ اگر حکومت ان کاغذی منصوبوں پر عملی اقدام کرتی تو شہریوں کو یوں بارش سے ہونیوالی پریشانیوں سے دوچار ہونا نہیں پڑتا ۔ محکمہ موسمیات بھی بارش کی پیش قیاسی کے معاملہ میں بہت پیچھے ہے ۔ بارش کے باعث ہونے والی پریشانیوں سے بچنے کیلئے جب حکمراں شہریوں کو گھروں سے نہ نکلنے کا مشورہ دے تو سمجھ لیا جانا چاہئے کہ یہ حکمراں اپنی ذمہ داریوں سے کس طرح راہ فرار اختیار کرنا چاہ رہیں ہے ۔ حکومت کے دعووں کی بہتی ندی میں عوام کو بارش نے اس طرح غرقاب کردیا ہے کہ آئندہ وہ حکومت کے وعدوں پر بھروسہ کرکے ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں یا اپنے لئے متبادل راہ کا انتخاب کریں گے یہ ان کے قوت فیصلہ پر منحصر ہوگا ۔ پرانے شہر میں غریب عوام نے شدید مصیبتوں کا سامنا کیا ہے ۔خواتین اور بچوں کو شدید بارش میں اپنے گھروں سے باہر نکل کر خوف کے عالم میں مدد کیلئے دوڑنا پڑا لیکن ہرجگہ کمر برابر پانی ہی پانی دیکھا گیا۔ کوئی گلی کوئی کوچہ ایسا نہیں تھا جہاں بارش کے پانی نے مکینوں کو غرقابی کے قریب پہونچادیا تھا ۔ ساز و سامان تباہ ہوئے ، چھوٹے بیوپاریوں کا کاروبار اور ان کی اشیاء کو نقصان پہونچا ۔ اس طرح کے واقعات کے روک تھام کیلئے حکومت کو جنگی خطوط پر شہر کے بلدی نظام کو موثر بنانے کے اقدام اٹھانا چاہئے ۔ کارپوریٹرس نے اپنے حصہ کا ترقی فنڈس لے کر دھاندلیاں کی ہیں تو اس کا سخت نوٹ لے کر باقاعدہ تحقیقات کروائی جاکر خاطیوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ جو کارپوریٹر اپنے حلقہ کی ترقی میں ناکام ہوچکا ہے اسے آئندہ انتخاب کیلئے نااہل قرار دینے کی ضرورت ہے ۔ ارکان اسمبلی ، ارکان پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رائے دہندوں کو ایک بہتر شہری زندگی گذارنے کا موقع دیں۔ لاپرواہیوں کا یہ سلسلہ فوری ختم کیا جانا چاہئے ورنہ اس طرح کے چھوٹے طوفان تو آتے رہیں مگر جب عوام اپنی قوت فیصلہ کے ذریعہ طوفان لانے کی ٹھان لیں گے تو ان کے نمائندوں کو غرقابی کی سزا کا سامنا کرنا پڑیگا ۔