حیدرآباد پیاسا رہے گا

خشک ہوجائیں زبانیں سوکھ جائیں سب گلے
آپ کی تائید کرنے کا یہی انعام ہے

آندھراپردیش اور تلنگانہ کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازعہ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کیلئے پینے کے پانی کا مسئلہ پیدا کرسکتا ہے۔ ریاست کی تقسیم کے وقت جو اصول و ضوابط مرتب کئے گئے ہیں ان پر دیانتدارانہ عمل نہیں ہوا تو پھر دو تلگو ریاستوں کے درمیان علاقائی لڑائی چھڑ جائے گی۔ یہ تشویشناک صورتحال ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جنوری 2015ء سے دریائے کرشنا سے پانی کا حصول مشکل ہوگا تو گریٹر حیدرآباد کو پینے کے پانی کی سربراہی مسدود ہوجائے گی۔ حیدرآباد کی گلیوں میں خزاں کا موسم سربراہان مملکتوں کی جانب سے پیدا کرنے کی کوشش شہریوں کے لئے مسائل کھڑا کردے گی۔ دونوں ریاستوں نے سری سیلم اور ناگرجنا ساگر ذخائر آب سے پانی چھوڑنے پر اپنے موقف کو نرم نہیں کیا تو آئندہ گرما میں دونوں شہروں خاص کر پرانے شہر کو پینے کے پانی کی سربراہی متاثر ہوجائے گی۔ فی الحال کرشنا آبی پراجکٹ مرحلہ ایک اور روم سے گریٹر حیدرآباد کی 92 لاکھ آبادی کی پینے کے پانی کی ضرورت کو پورا کیا جارہا ہے۔ دریائے کرشنا میں ناگرجنا ساگر سے پانی صرف اس وقت چھوڑا جاسکتا ہے جب اس کی سطح آب 510 فٹ کے اوپر ہو۔ حیدرآباد تک پانی سربراہ کرنے کیلئے دریائے کرشنا کیلئے پانی چھوڑا جانا ضروری ہے۔ دو ریاستوں کی حکومتوں نے آبی تقسیم کے مسئلہ کو انا کا مسئلہ بنا لیا تو شہریوں کو پیاسا رہنا پڑے گا۔ جب آندھراپردیش متحدہ ریاست تھی حکومت کی اولین ترجیح دارالحکومت حیدرآباد کو پینے کے پانی کی ضرورت کو پورا کرنا ہونا تھا۔ اب حکومت آندھراپردیش اس مسئلہ پر اپنی بالادستی دکھا رہی ہے تو حیدرآباد سنگین صورتحال سے دوچار ہوجائے گا۔ دریائے کرشنا کا تیسرے مرحلہ کا پراجکٹ پورا ہونے سے قبل ہی پانی کا جھگڑا پیدا کردیا جارہا ہے تو یہ سیاسی مفادپرستی کا بدترین مظاہرہ ہے۔ تلنگانہ حکومت کو آنے والے دنوں میں رونما ہونے والے مسائل کا اندازہ کرتے ہوئے پیشگی منصوبے بنانے ہوں گے۔ نہ صرف ناگرجنا ساگر ڈیم سے پینے کے پانی کی ضرورت کو پورا کرنا ہے بلکہ موسم سرما میں پیش آنے والی آبی قلت کو دور کرنے کیلئے متبادل اقدامات کرنے ہیں۔ اس وقت آندھراپردیش اور تلنگانہ کے دو علحدہ علحدہ ترجیحات ہیں۔ خاص کر آندھراپردیش کو حیدرآباد کے آبی مسئلہ سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ اس لئے تلنگانہ حکومت کو ہی سربراہی آب کے مسئلہ کو اہم کاز کے طور پر نمٹنے کی تیاری کرنی ہوگی۔ آبی ٹریبونل کی موجودگی کے باوجود جب سیاسی نوعیت کے جھگڑے کھڑا کئے جاتے ہیں تو اس میں شہریوں کو مشکلات سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت سے بھی ایسی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ تلنگانہ خاص کر حیدرآباد کے پانی کے مسئلہ پر توجہ دے گی اگرچیکہ بحیثیت ایک سرپرست حکومت مرکز کو تمام ریاستوں اور علاقوں سے یکساں سلوک کرنا اولین ذمہ داری ہے۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کو بات چیت کی میز پر لاتے ہوئے آبی تنازعہ پیدا ہونے سے گریز کرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ ماضی میں تلنگانہ کے ساتھ جتنی ناانصافیاں ہوئی ہیں اس کا تسلسل مابعد تقسیم برقرار ہوں تو یہ ایک سانحہ سے کام نہیں ہوگا۔ بلاشبہ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ اپنی ریاست اور عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کررہے ہیں۔ برقی کی قلت کو دور کرنے کیلئے انہوں نے پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ سے 1000 میگاواٹ برقی خریدنے کے معاہدہ کو منظوری دی ہے تو آندھراپردیش کے ساتھ بھی تلنگانہ کے حصہ کا پانی حاصل کرنے کیلئے ریاستی قومی سطح پر کوشش کرنی پڑے گی۔ چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو پر الزام عائد کیا جارہا ہیکہ وہ تلنگانہ کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تلنگانہ ریاست کی آج جو کچھ صورتحال ہے وہ ماضی کے حکمرانوں کی بددیانتی اور تعصب پسندی کا ثبوت ہے۔ اس لئے ماضی کی ناانصافیوں کو حال کی صورتحال سے مربوط کرنے کی کوشش سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ شہر حیدرآباد کو پیاسا رکھنے کی سازشوں کو ناکام بنانا چیف منسٹر تلنگانہ کی ذمہ داری ہے۔ حصول تلنگانہ میں وہ کامیاب ہوئے ہیں تو اب شہریوں کو پیاسا رکھنے والے تنازعات کو دور کرنا ضروری ہے۔ دونوں شہروں کو سربراہی آب کیلئے جو دیگر وسائل ہیں ان میں عثمان ساگر اور حمایت ساگر بھی اس سال مانسون کی کمی کے باعث پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سنگور، مانجرا میں بھی صرف 190 دن کا پانی ہے۔ اس لئے حکومت ابھی سے سربراہی آب کے مسئلہ پر توجہ دے کر مستقل حل تلاش کرے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان دریائے گوداوری اور کرشنا سے مربوط بعض ٹیکنیکل مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کیا جانا چاہئے۔