پارٹی سربراہ چندر شیکھر راؤ بھی فکرمند ۔ ابتدائی مرحلہ میں انتخابی مہم سے بھی گریز
حیدرآباد۔/22اپریل، ( سیاست نیوز) تلنگانہ راشٹرا سمیتی جو نئی ریاست میں اقتدار کی کوشش کررہی ہے تاہم اسے تلنگانہ کے دو اضلاع میں ابھی بھی اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے جدوجہد کا سامنا ہے۔ ٹی آر ایس تلنگانہ کے 119اسمبلی حلقوں میں 90سے زائد حلقوں پر کامیابی کا دعویٰ کررہی ہے لیکن حیدرآباد اور کھمم اضلاع میں پارٹی کا کمزور موقف اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ان دو اضلاع میں پارٹی کے کمزور موقف سے خود چندر شیکھر راؤ بھی اُلجھن کا شکار ہیں اور انتخابی مہم کے پہلے مرحلہ میں انہوں نے ان دونوں اضلاع کو اپنے پروگرام میں شامل نہیں رکھا۔ چندرشیکھر راؤ تلنگانہ کے 8اضلاع پر ہی ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں کیونکہ حیدرآباد اور کھمم میں پارٹی کی مضبوط قیادت کے علاوہ کیڈر کی کمی ہے۔ ان دونوں اضلاع کے اسمبلی اور لوک سبھا امیدواروں کے انتخاب کے مسئلہ پر بھی ٹی آر ایس کو موزوں امیدواروں کیلئے انتظار کرنا پڑا۔بتایا جاتا ہے کہ حیدرآباد اور کھمم میں امیدواروں کا انتخاب محض ضابطہ کی تکمیل کے طور پر کرنا پڑا۔ کھمم میں پارٹی کے کمزور موقف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ ایم پی ٹی سی اور زیڈ پی ٹی سی چناؤ میں ٹی آر ایس کو امیدواروں کی تلاش کرنی پڑی۔ حیدرآباد کے 15 اسمبلی اور 2لوک سبھا حلقوں میں صرف حلقہ اسمبلی سکندرآبادکنٹونمنٹ میں ٹی آر ایس کو کچھ امیدیں ہیں۔ اس حلقہ سے پارٹی کے سینئر قائد پدما راؤ مقابلہ کررہے ہیں جو سابق میں ایک مرتبہ سکندرآباد اسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقہ میں تلگودیشم کے سینئر قائد اور تین مرتبہ منتخب ہونے والے جی سائینا سے ان کا مقابلہ ہے۔ شہر کے دیگر اسمبلی حلقوں میں چونکہ ٹی آر ایس کو کامیابی کی امید نہیں ہے لہذا چندر شیکھر راؤ نے اپنے انتخابی پروگرام میں ان علاقوں کو شامل نہیں کیا۔ کھمم میں سابق رکن اسمبلی جلگم وینگل راؤ کے علاوہ کوئی اور مضبوط امیدوار ٹی آر ایس کے حق میں نہیں ہے۔ ان دونوں اضلاع میں اسمبلی کی تقریباً 25نشستیں ہیں اور ان نشستوں پر عدم کامیابی کی صورت میں ٹی آر ایس کس طرح 90کے نشانہ کو عبور کرپائے گی۔ پارٹی ذرائع نے اعتراف کیا کہ نلگنڈہ، نظام آباد اور محبوب نگر میں بھی پارٹی کا موقف اس قدر مستحکم نہیں جس طرح توقع کی جارہی تھی۔حیدرآباد کے لوک سبھا اور اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کرنے والے امیدواروں کو پارٹی قیادت نے عملاً رائے دہندوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔