خود روزگار کیلئے جناب زاہد علی خاں کا اہم رول ، بنڈی پر کاروبار کرنے والے محمد خواجہ کا اظہار خیال
حیدرآباد ۔ 2 ۔ اگست : ( نمائندہ خصوصی) : سال 2002 کے دوران گجرات میں ہوئی تباہی و بربادی کے بارے میں کون نہیں جانتا ، فرقہ پرست درندے مسلمانوں کی نعشوں پر سے گذر کر اقتدار کی کرسی تک پہنچے تھے ۔ ان فسادات میں مسلمانوں کا زبردست جانی و مالی نقصان ہوا ۔ بے شمار لڑکیوں اور خواتین کی عصمتیں تار تار کی گئیں ۔ ایسے میں حیدرآبادیوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے ۔ شہر میں نہ صرف ان کے قیام و طعام کے انتظامات کیے بلکہ انہیں روزگار سے مربوط کرنے کی خاطر ان کی مالی مدد بھی کی ۔ گجرات سے لٹے پٹے حیدرآباد پہنچنے والے گجراتی مسلمانوں میں محمد خواجہ بھی شامل تھے ۔ روزنامہ سیاست نے سیاست ریلیف فنڈ کے ذریعہ محمد خواجہ کے بشمول 15 تا 20 افراد کو نئی بنڈیاں اور کچھ سامان فراہم کرتے ہوئے انہیں کاروبار کرنے کی ترغیب دی ۔ نتیجہ میں ان پریشان حال گجراتی مسلمانوں کو کسی قدر راحت ملی ۔ ان ہی افراد میں سے ایک محمد خواجہ سے ہماری ملاقات ہوئی ۔ 60 سالہ محمد خواجہ نے جو اب حیدرآبادیوں کے رنگ میں رنگ گئے ہیں بتایا کہ وہ مپانہ کے ایک گاؤں میں رہا کرتے تھے لیکن مپانہ کے ایک گاؤں سندر پور میں فسادات کے دوران 40 تا 45 مسلمانوں کے قتل اور پھر مسلم خواتین و عورتوں کے ساتھ فرقہ پرست درندوں کی درندگی کے بارے میں سن کر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ وہاں سے نکل کر حیدرآباد پہنچا جائے کیوں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ عزت کو ہی اہمیت دی ہے ۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں ’’ تندرستی گئی تو کچھ گیا اور عزت گئی تو سب کچھ گیا ‘‘ چنانچہ انہوں نے صرف اور صرف اپنی بچیوں کے تحفظ کی خاطر حیدرآباد کا رخ کیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان کی 6 لڑکیوں میں سے چار لڑکیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں جب کہ مزید دو لڑکیوں میں سے ایک کی منگنی ہوئی ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں دس بچے تھے جن میں سے دو بچپن میں ہی فوت ہوگئے ۔ اس طرح اب 6 لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں ۔ محمد خواجہ نے بتایا کہ حیدرآباد میں آمد کے ساتھ ہی ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی شکل میں گجرات کے پریشان حال مسلمانوں کو ایک محسن ملا اور انہوں نے ہی ان کے لیے ایک بنڈی اور ’ ہر مال ‘ پانچ دس روپئے والا سامان دلایا ۔ اس طرح 15 تا 20 افراد کی 8 تا 10 ہزار روپئے مالیتی سامان کے ساتھ مدد کی ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے حیدرآباد میں کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا بلکہ حکیم پیٹ ، ٹولی چوکی ، احمد نگر ، فرسٹ لانسر جیسے علاقوں میں پھر پھر کر سامان فروخت کیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ اس طرح وہ یومیہ 250 ۔ 200 روپئے کما لیتے ہیں ۔ جناب زاہد علی خاں اور مسلمانان دکن کے حق میں دعا کرتے ہوئے محمد خواجہ نے کہا کہ سیاست اور حیدرآبادی مسلمانوں نے گجرات کے مظلوم و پریشان مسلمانوں کی دل کھول کر مدد کی ہے جسے زندگی بھر نہیں بھلایا جاسکتا ۔۔