بچوںکی نشوونما میں بڑی رکاوٹ، اسکولی نصاب کا بوجھ، والدین کے استفسار پر انتظامیہ کا بے ڈھنگی جواب
حیدرآباد ۔ 8 جون (سیاست نیوز) بچوں کی نشونما و تربیت میں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ کھیل کود کا بھی کافی اثر ہوتا ہے لیکن دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے علاوہ ریاست تلنگانہ کے اسکولوں میں کھیل کود کی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ کھیل کود کی سرگرمیوں کے لئے سب سے پہلے کھلی وسیع و عریض جگہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن شہر ہی نہیں بلکہ اضلاع کے بھی نصف سے زیادہ اسکولوں میں کوئی میدان موجود نہیں ہے جبکہ اسکول کے الحاق کے لئے یہ لازمی ہیکہ وہ درخواست کے ساتھ کھیل کود کیلئے مختص کردہ میدان کی تفصیلات درج کرے لیکن اس کے باوجود بھی اسکولوں کی جانب سے بچوں کو کھیل کود کے ذریعہ بہتر نشونما کا موقع بہت ہی کم میسر آرہا ہے چونکہ اسکولوں میں نہ صرف کھیل کود پر توجہ دینے کا کلچر ختم ہوچکا ہے بلکہ بچوں پر تعلیم کا اتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ وہ اس بوجھ کی تاب لانے کے متحمل نہیں ہیں تو انہیں کھیلنے کیلئے وقت کہاں سے حاصل ہوگا۔ حیدرآباد میں موجود 712 سرکاری اسکولوں میں 480 ایسے اسکولس ہیں جن میں کھیلنے کیلئے کھلے میدان موجود نہیں ہیں لیکن جب سرکاری اسکولوں کی ہی یہ حالت ہے تو خانگی اسکولوں سے اس شرط کو پورا کرنے کی توقع کرنا ہی فضول ہے چونکہ خانگی اسکول کئی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے کے باوجود والدین کو حقیر تصور کرتے ہوئے ان سے گفتگو کرنا اور استفسار کرنے والے والدین کے بچوں کے ساتھ بغض رکھنا اپنا وطیرہ بنا چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں قومی ذرائع ابلاغ میں حیدرآباد کے ایک اسکول کا کافی چرچہ رہا چونکہ اسکول نے استفسار کرنے والے والد کے بچہ کو اسکول سے ہی نکال دیا اور بعض اسکول کے ذمہ دار جو قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کا ادعا ہوتا ہیکہ محکمہ تعلیم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ حکومت سرکاری اسکولوں و خانگی اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے ضروری اقدامات کرتے ہوئے بچوں کے کھیل کود کی سرگرمیوں کو بحال کروائے تاکہ طلبہ کو روزمرہ کے تعلیمی مشقوں سے راحت حاصل ہو اور ان کی دماغی نشونما کے ساتھ ساتھ جسمانی نشونما کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ بلدی عہدیداروں کا کہنا ہیکہ خانگی اسکول الحاق کے حصول کیلئے بلدیہ کے میدان اور پارک کرایہ پر حاصل کرتے ہیں اور ایک ہی میدان و پارک پر کئی اسکولوں کو الحاق حاصل ہورہا ہے لیکن عملی طور پر میدانوں میں سرگرمیاں نہ کے برابر نظر آتی ہے جس کے باعث بلدی عہدیدار اب اس بات پر غور کررہے ہیں کہ اسکولس و کالجس جو میدان دکھاتیہوئے الحاق حاصل کررہے ہیں۔ ان سے میدان کے استعمال پر یومیہ کرایہ وصول کیا جائے تاکہ محکمہ تعلیم و حکومت کو بھی اس بات کا علم ہو کہ اسکولوں کی جانب سے کس حد تک کھیل کود کی سرگرمیاں چلائی جارہی ہیں۔ اولیائے طلبہ نے بھی اسکول انتظامیہ و حکومت سے اپیل کی ہیکہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دے تاکہ بچوں کے کھیل کود کے ذریعہ ان کی جسمانی نشونما بہتر ہوسکے۔