!حیدرآباد ، گلوبل سٹی ۔

معتبر شخص ہے یُوں بات نہیں مانے گا
آئینہ سامنے رکھ کر ہی سنانا ہے اُسے
!حیدرآباد ، گلوبل سٹی ۔
حیدرآباد کو حقیقی عالمی شہر بنانے کا اعلان کرتے ہوئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے آئندہ 3 سال کے دوران حیدرآباد میں 55000 کروڑ روپئے کے وسیع تر فنڈ سے ترقیاتی کاموں کے انجام دہی کا خواب دکھایا ہے ۔ 55000 کروڑ کے فنڈ کے اعلان کو خواب ہی کہا جائے گا ۔ چیف منسٹر نے عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ترقیاتی کام انجام دینے کے لیے ایکشن پلان تیار کریں ۔ چیف منسٹر کے اس طرح کے اعلانات گذشتہ چار سال سے سنتے آرہے ہیں ۔ حیدرآباد کے شہری گو مگو کی حالت میں ہیں کہ آیا چیف منسٹر کی کوئی بات سچ ثابت ہوگی اور یہ کہ آیا مقامی جماعت سے نکل کر وہ علاقائی پارٹی کی طرف بڑھتے ہیں یا پھر اس میں پھنسے رہنے کو ترجیح دیں گے ۔ حیدرآباد کے حق میں خوش کن اعلانات کرنے والوں میں کے سی آر واحد چیف منسٹر نہیں ہیں ان سے پہلے بھی کئی چیف منسٹروں نے ہزاروں کروڑ کے اعلانات کیے ہیں ، البتہ ماضی میں بعض چیف منسٹروں نے عملی اقدامات کر کے شہر کی عظمت رفتہ کو برقرار رکھا تھا ۔ لیکن مسائل جوں کا توں ہیں بلکہ ان مسائل میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ شہر حیدرآباد پہلے ہی سے عالمی سطح پر مقبول شہر ہے ۔ حیدرآباد جو کبھی جگمگاتا شہر ہوتا تھا اب وہ جگہ اجڑا ہوا تاریکی کا شکار ہونے کا نقشہ پیش کررہی ہے ۔ کون اور کب اس شہر کو گلوبل سٹی بنائے گا ، یہ وقت ہی بتائے گا ۔ مگر موجودہ ٹی آر ایس حکومت کے عزائم سے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہیں ہوگی کہ وہ دل ہی دل میں سمجھ رہی ہوگی کہ چلو پھر ہم عوام کو مزید 5 سال کے لیے بے وقوف بناتے ہیں ۔ حیدرآباد کے عوام یہی سوچ رہے ہیں کہ تلنگانہ میں انتخابات کے لیے اب بمشکل ایک سال رہ گیا ہے تو چیف منسٹر کی حیثیت دوبارہ اقتدار پر برقرار رہنے کے لیے کے سی آر کو کچھ نہ کچھ کاغذی کام کر کے دکھانے ہیں لہٰذا وہ شہر حیدرآباد کے حوالے سے کروڑہا روپئے کے منصوبے لے کر آرہے ہیں ۔ تاریخی طور پر شہر حیدرآباد پوری دنیا میں اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے ۔ اس کو گلوبل سٹی کی حیثیت سے ترقی دینے کا منصوبہ بلا شبہ ایک اچھی کاوش ہوگی ۔ اگر یہ منصوبہ صرف انتخابات جیتنے کا حربہ ہے تو اس سے شہریوں کو پھر ایکبار مایوسی ہوگی ۔ کے سی آر نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتخاب جیتنے کی ایک عمدہ ترکیب اختیار کرلی ہے ۔ عوام کے سامنے بالکل سادگی سے اپنے منصوبوں کا اعلان کردو اور ان سے ووٹ حاصل کرلینے کے بعد اتنی ہی سادگی سے منصوبوں کو فراموش کردو ۔ اس فراموش کی سزا عوام کے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے ۔ کیوں کہ شہر حیدرآباد کے ایک حصہ کی نمائندگی کرنے والی مقامی جماعت حکمراں پارٹی کی تائیدی بن کر شہر کے اپنے رائے دہندوں کے اعتماد کو ٹھیس پہونچانے کا پھر ایک بار شرمناک مظاہرہ کرتی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے انتخابات سے قبل شہر حیدرآباد کی ترقی کا اعلان کرتے ہوئے درپردہ طور پر ٹی آر ایس کے سیاسی منشور کے ایک حصہ کو پیش کیا ہے مگر اصل منشور تو ان کی نیت ہے اور ترجیحات ہیں ۔ جن کا تعین دیانتداری سے کیا جائے تو شہر کو ترقی دینے کے لیے مختص کئے جانے والے فنڈس کو من و عن خرچ میں لایا جائے گا ۔ چیف منسٹر نے کہا کہ آئندہ 3 سال کے دوران شہر کی سڑکوں ، باغوں ، تالابوں ، ڈرینج نظام کو بہتر بنایا جائے گا ۔ عثمان ساگر ، حمایت ساگر اور حسین ساگر میں گوداوری سے پانی لاکر ذخیرہ کیا جائے گا ۔ لیکن ان 3 ذخائر آب کے تعلق سے حقیقت یہ ہے کہ اگر انہیں موجودہ طور پر ہی بہتر بنایا جائے تو پانی کے ذخیرہ کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی ۔ جہاں تک حسین ساگر کا تعلق ہے اس تالاب پر سیاست بہت کی جاچکی ہے لیکن حسین ساگر کے پانی کی صاف صفائی اور اسے خوبصورت بنانے کا منصوبہ ہنوز حکمراں کے ہاتھوں میں ہی اچھل رہا ہے ۔ شہر کے لیے ترقیاتی پروگراموں کو قطعیت دینے کا مرحلہ کب آئے گا اس کا شہریوں کو انتظار رہے گا ۔ چیف منسٹر کے اجلاس میں شریک عہدیداروں نے یہ یقین تو ظاہر کیا ہے کہ چیف منسٹر شہر حیدرآباد کو ترقی دینے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ شہر میں ٹریفک کا مسئلہ سنگین ہے ۔ فلائی اوورس کی تعمیر ، اسکائی ویز کو عملی شکل دیتے ہوئے شہر کو اس خطوط پر ترقی دی جائے گی کہ آئندہ 25 تا 30 سال تک سڑکوں کی توڑ پھوڑ نہیں ہوگی ۔ حکمراں کے وعدوں سے گہرے تجربات رکھنے والے عوام کے سامنے حکمراں کی نیت بھی مخفی نہیں ہے ۔۔