مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
جب بچے جوان ہو جاتے ہیں تو یہ زندگی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی سوچیں ہوتی ہیں اور احساسات و جذبات ہوتے ہیں۔ جس طرح ان کو کھانے پینے یا سونے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ان کو اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ شریعت و سنت میں اس کا بہترین حل یہ بتایا گیا ہے
کہ جب بچوں کے جوڑے مل جائیں تو فوراً ان کی شادی کردی جائے۔ ہمارے اسلاف اس بارے میں اتنا احتیاط برتتے تھے کہ جیسے ہی انھیں پتہ چلتا کہ گھر میں بچی جوان ہو گئی ہے تو ایک سے دوسرا مہینہ نہیں ہونے دیتے تھے، بلکہ اُس کی رخصتی کرکے اپنا فریضہ ادا کردیتے تھے۔ اسی لئے کتابوں میں لکھا ہے کہ جوان ہونے کے بعد اگر بیٹی کی شادی نہ کی گئی تو وہ جو بھی گناہ کرے گی، وہ ماں باپ کے نامۂ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ آج مسلم معاشرے کی یہ حالت ہے کہ جہیز اور اِدھر اُدھر کی تیاریوں میں اتنی تاخیر کرتے ہیں کہ دیگر بیٹیاں بھی جوان ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں جب کہ بچی جوان ہو گئی اور اس کو دس پندرہ برس مزید ماں باپ کے گھر رہنا پڑا تو اس صورت میں وہی بچی گناہ سے بچ سکتی ہے، جو یا تو غبیہ ہوگی یا پھر اللہ کی ولیہ۔ غبیہ اُسے کہتے ہیں، جس کا دماغ کام نہ کرتا ہو اور اس کی کیفیت پاگلوں والی ہو، جب کہ ولیہ اسے کہتے ہیں، جس کے سینے کو اللہ تعالیٰ نے ولایت کے نور سے معمور کردیا ہو۔ تاہم ان دونوں کیفیت کے درمیان بچوں کا گناہ سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لئے کہ شیطان گناہ کی طرف بلاتا ہے اور انسان کا اپنا نفس گناہ کی طرف کھینچتا ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو انسان کی شکل میں شیطان کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنا ہم جماعت ہو، اپنا قریبی رشتہ دار ہو یا اجنبی غیر محرم ہو، سب کے سب گناہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ پھر ریڈیو، ٹی وی، گانا، موسیقی، ویڈیو اور انٹرنیٹ کی چیاٹنگ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایسی صورت میں جب ایک نوجوان بچی کو ہر طرف گناہوں کی کشش کھینچتی ہے تو اس کے خیالات میں فرق آنا شروع ہوجاتا ہے۔ حیا ایک قدرتی اور فطری چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ نے عورت میں رکھی ہے، تاہم ایسی صورت میں حیا اور پاکدامنی کی زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کو اپنے آپ سے ایک جنگ کرنی پڑتی ہے۔
بہت سی خوش نصیب بچیاں ایسی بھی ہیں، جو اس جنگ کو سمجھتی ہیں اور یہ سمجھ کر زندگی گزارتی ہیں کہ ’’ہم جہاد کر رہے ہیں‘‘۔ وہ دعوت گناہ کو ٹھکراکر اپنے ناموس کی حفاظت کرتی ہیں اور اللہ کی نظر میں فتح یاب ہوتی ہیں۔ جس طرح ایک مجاہد جنگ میں فتح یاب ہوکر غازی بنتا ہے، اسی طرح اگر بچی اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں غازیہ ہوگی۔ یعنی مردوں کا جہاد میدان جنگ میں ہوتا ہے، جب کہ عورت کا جہاد اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنے نفس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح مرد کا جہاد کُھلا ہوا اور سب کے سامنے ہوتا ہے، جب کہ نوجوان بچی کا جہاد چھپا ہوا ہوتا ہے، جس کا ذکر وہ کسی کے سامنے نہیں کرسکتی اور کسی کو اپنے دل کی بات نہیں بتاسکتی۔ شیطان اس پر طرح طرح سے حملے کرتا ہے، نفس اس کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ اپنے رب کے سامنے فریاد اور اپنے آپ سے جہاد کرتی ہے، تاکہ وہ اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہو جائے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ عورت کی ہر غلطی معاف ہوسکتی ہے، لیکن کردار کی غلطی معاف نہیں ہوتی۔ لہذا عورت کی تربیت میں اگر کوئی دوسری کمی رہ گئی، جیسے زبان دراز ہے، غصہ والی ہے، ضدی ہے، کام چور ہے، سست ہے، اس قسم کی تمام خامیاں بآسانی برداشت کرلی جاتی ہیں، لیکن اس کے کردار کی کمزوری برداشت کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ اس لئے بچیوں کے لئے اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا، سب سے بڑا کام ہے۔