سیدہ رضوانہ فاطمہ
حبیب پاک علیہ الصلوۃ و السلام کا ارشاد مبارک ہے: ’’ہر قسم کی حیاء بہتر ہے، جب تمہارے اندر حیاء نہیں تو جو چاہے کرے‘‘ ( بخاری شریف، کتاب الادب ) جیسا کہ دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’ الحیاء من الایمان‘‘ حیاء قبیح اور بُرے کاموں سے بچنے کو کہتے ہیں جن کو کرگزرنے سے انسان نادِم و پشیماں ہو۔ حیاء ہمیشہ خلاف شرع کاموں سے انسان کو روکتی ہے اور اسی وجہ سے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاء کو ایمان کا ایک جز قرار دیا اور جو حیاء دار ہوگا وہ جنت میں جائے گا، اور بے حیائی بدی میں سے ہے اور بدکار آدمی دوزخ میں جائے گا۔
ایک اور حدیث شریف ہے کہ حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس چیز میں فحش ہوگا اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں اور جس میں حیاء ہے اس کا انجام خیر ہی خیر ہے۔‘‘
اسلام دائمی اور بین الاقوامی نظام حیات ہے۔ اسی لئے اسلام نے شرم و حیاء کی دائمی اور عالمی قدریں مقرر کردیں ہیں۔ جب جب اور جہاں جہاں اسلام کو سمجھا گیا وہاں شرم و حیاء کی قدریں نکھرتی اور سنورتی رہیں۔ دراصل حیاء نام ہے شرم کا۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حدود کے اندر رکھنے کا۔ یہ حدود لباس، غذا، زبان و عمل، غرض تمام چیزوں میں اسلام نے مقرر کردیئے ہیں۔ والدین اور اولاد، استاد و شاگرد، سماج و فرد، یہاں تک کہ عبد اور معبود کے درمیان استوار ہیں۔
آنکھ کی حیاء تو مشہور ہی ہے۔ حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تمام اعضاء جسم کی حیاء بھی مقرر فرمادی ہیں یعنی حدود سمجھادیئے ہیں۔غرض کہ ہر عضو کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تاکہ منعم حقیقی کا شکر ادا کریں۔ دنیا میں آنکھ کا استعمال یہ ہے کہ خوفِ الٰہی سے روئے۔ عشق حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم میں سوزِ دل کے ساتھ نم ہوجائے اور مالک حقیقی کی کتاب کو پڑھے اور اس پر عمل کرے اور آخرت میں آنکھ پروردگار کے دیدار کیلئے پیدا کی ہے، اور دونوں جہان میں دیدار الٰہی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ النظر اساس الذنوب‘‘ ( نظر گناہ کی جڑ ہے)۔ حیاء سے اپنی آنکھ جو مینیات سے روکے گا وہ آنکھ دوزح میں نہیں جلے گی۔
حضرت نجم الدین کبری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’ ایمان والو! آنکھ کی محافظت کروکہ جس کسی نے آنکھ کی حفاطت کی اس نے نجات پائی۔‘‘
ایک صحابی ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ نجات کس چیز میں پنہا ہے تو حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ احفظ عینک‘‘ (اپنی آنکھ کی حفاظت کرو)۔
دورِ حاضر کے احوال سے ہم پوری طرح واقف ہیں کہ کس طرح فتنے جنم لے رہے ہیں اور کس قدر آزمائشیں دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ ہر طرف بے حیائی کا طوفان اور بیہودگی کا سیلاب ہے۔ مسلمان مغربی تقلید کو اپنارہے ہیں اور مشرق والوں میں بھی یہ خیال عام ہوتا جارہا ہے کہ انسان کی ترقی عورتوں کی ترقی میں ہے، اور عورتوں کی ترقی بے حیائی میں مضمر ہے۔ یہ بات یقیناً صحیح ہے کہ انسانی ترقی کیلئے عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے لیکن یہ خیال غلط ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کے لئے بے حیائی بھی اشدِ ضروری ہے۔
اسی طرح صحابیات رضی اللہ عنھا کے واقعات کو دیکھیئے: ایک مرتبہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے کا انتقال ہوگیا۔ وہ تسکین غم کیلئے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں آتی ہیں تو کسی نے ان سے پوچھا کہ آپؓ پر اتنا غم ہے، اس کے باوجود آپ اتنے مکمل پردے کی حالت میں تشریف لائیں؟ تو آپ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ’’ میں نے اپنا لڑکا کھویا ہے، میں نے اپنی حیاء نہیں کھوئی۔‘‘اس پر غور کرتے ہوئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مَردوں کی جسمانی ساخت الگ بنائی ہے اور عورتوں کی جسمانی ساخت الگ بنائی ہے۔ جس طرح مَردوں کی صلاحیتیں اور جواہر علحدہ ہیں اسی طرح عورتوں کی صلاحیتیں اور جواہر بھی علحدہ ہیں۔ فطری طور پر مَردوں میں بہادری، ہمت، جرأت، طاقت اور محنت کا جذبہ عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے۔اسی طرح عورتوں میں صبر، برداشت اور حیاء کا جوہر مرد کے مقابل زیادہ ہوتا ہے۔ عورتوں میں یہی حیاء انہیں پردہ میں رہنے پر آمادہ کرتی ہے۔
عورتوںمیں جو فطری حیاء کا جوہر ہوتا ہے بعض مواقع بعض حالات اور ماحول ان پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور اس جوہر کو ختم کرنے لگتے ہیں۔مثلاً غلط ماحول، غلط صحبت، غلط رہبری اس فطری جوہر کو ختم کردیتی ہے تو وہ برسرِ عام بے حیائی کو معیوب نہیں سمجھتے۔
واضح ہوجائے کہ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے، آج دنیا ایک چھوٹے قصبہ کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ انٹر نٹ ایک وسیع دائرہ کی طرح ساری دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ جس قدر ابلاغ و ترسیل وسیع طور پر عام ہوتے جارہے ہیں اسی طرح معاشرہ میں بے حیائی بھی پھیلتی جارہی ہے اور ان وسائل کے غلط استعمال کے سبب نئی نسل میں تباہی اور بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔
اس ضمن میں حدیث مبارکہ ہے ، حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دین اور مذہب میں ایک خلق ہے یعنی ایک بہترین صفت ہے اور اسلام کا وہ خلق یعنی وہ بہترین صفت حیاء ہے۔‘‘ اس حدیث شریف سے یہ بات اخذ کرنا چاہیئے کہ اگر انسان میں حیاء نہیں تو وہ اسلام کی سب سے بڑی خوبی سے محروم ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ان اشیاء کو ہی اہمیت دی جاتی ہے جس پر ٹریڈ مارک (Trade Mark) نقش ہو اور جن اشیاء پر یہ مارک نہیں ہوتا، اس کو زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اسی طرح ایک حیاء دار عورت اور بے حیاء عور ت میں یہی فرق ہے کہ حیاء دار عورت کو سلیم الفطرت معاشرہ گرانقدر نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے برعکس بے حیاء عورت کو ذلت آمیز نگاہ سے دیکھتا ہے۔
حیاء کی صفت وہ صفت ہے جو بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ صفت جس شخص میں بھی ہوگی وہ برائی کے پاس نہیں جائے گابلکہ وہ بھلائی کی طرف مائل ہوگا۔ جیسا کہ امام نوی رحمۃ اللہ علیہ حیاء کی حقیقت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حیاء ایک وصف ہے جو انسان کو بُرے کام نہ کرنے پر اُبھارتا ہے اور اہل حق کی ادائیگی میں کوتاہی سے روکتا ہے۔
غرض کہ اسلامی تعلیمات نے معاشرہ کو سنوارتے ہوئے پاکیزہ بنایا ہے۔ معاشرتی اور سماجی فتنوں کے دروازے بند کردیئے ہیں۔ اسلام نے عورت کو حفظ و امان عطاء کیا ہے۔ مذہب اسلام نے صنفِ نازک کو عزت و عظمت کا مقام عنایت فرمایا ہے۔
قابلِ تحسین اور قابلِ احترام ہیں موجودہ دور کی وہ پاکباز خواتین جو بے ہودہ خواہشات اور بے حیائی سے دور ہیں، اور اسلامی احکامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پردہ میں رہنے کا پورا پورا لحاظ رکھ رہی ہیں اور پردہ کے ذریعہ حقیقی معنی میں اپنے عورت ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔