حکومت کے مثبت اقدامات پر تعلیمی معیار میں اضافہ

کونسل میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر تعلیم کڈیم سری ہری کا بیان
حیدرآباد۔29ڈسمبر (سیاست نیوز) ریاست میں سرکاری اسکولوں کی بہتری اور نظام تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے حکومت کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد متعدد اقدامات کئے گئے جس کے مثبت نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر و ریاستی وزیر تعلیم مسٹر کڈیم سری ہری نے قانون ساز کونسل میں وقفہ سوالات کے دوران قائد اپوزیشن جناب محمد علی شبیر‘ مسٹر پی سدھاکر ریڈی‘ مسٹر ایم رنگاریڈی اور ڈاکٹر آر بھوپتی ریڈی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے رہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی حکومت نے سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے اقدامات کئے ہیں اور ریاست کے پیشتر تمام اسکولوں میں بیت الخلاء اور پانی کی سربراہی کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسٹر کڈیم سری ہری نے بتایا کہ ریاست میں سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت کے لئے سابق میں اختیار کردہ غلط پالیسیاں ذمہ دار ہیں لیکن موجودہ حکومت نے سرکاری اسکولو ں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے علاوہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے جو اقدامات کئے ہیں اس کے سبب جاریہ تعلیمی سال کے دوران سرکاری اسکولوں کے داخلوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حکومت نے انگریزی میڈیم متعارف کروایا کیونکہ سابق میں انگریزی میڈیم سرکاری اسکول نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری اسکول میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ خانگی اسکولوں کا رخ کیا کرتے تھے لیکن اب دوبارہ سرکاری اسکولوں میں داخلوں کے رجحان میں اضافہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی بالخصوص بیت الخلاء اور پانی کی سربراہی کے لئے سروا سکھشا ابھیان اور آر ایس وی ایم کے ذریعہ امداد فراہم کی گئی ہے تاکہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ ریاست کے جملہ 25ہزار 966سرکاری اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علحدہ بیت الخلاء تعمیر کئے جا چکے ہیں۔علاوہ ازیں ہر اسکول میں دو اٹنڈر اور واچ مین کے تقررات عمل میںلائے گئے ہیں ۔ محمد علی شبیر نے وقفہ سوالات کے دوران مباحث میں حصہ لیتے ہوئے سدھیر کمیٹی رپورٹ کے حوالہ سے کہا کہ171اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہیں اور 76اسکولوں میں پانی کی سہولت نہیں ہے اور 67ایسے اسکول ہیں جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ جناب محمد علی شبیر نے کہا کہ ریاست میں 1241اسکولس بند کر دیئے گئے جبکہ 108اسکولوں میں کوئی داخلہ نہیں ہے۔ انہوں نے قومی شرح خواندگی اور ریاستی شرح خواندگی میں پائے جانے والے فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ قومی شرح خواندگی 71فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ریاست تلنگانہ کی شرح خواندگی 69فیصد پر ہی ہے۔ قائد اپوزیشن نے کہا کہ لاکھوں روپئے تنخواہوں کی ادائیگی کے باوجود معیار میں بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے اسی لئے نظام تعلیم کو تبدیل کرتے ہوئے اصلاحات لائے جانے چاہئے جبکہ خانگی اسکولوں میں اساتذہ کم تنخواہوں پر خدمات انجام دیتے ہیں لیکن ان کے معیار سرکاری معیار تعلیم سے کافی بہتر ہیں۔ محمد علی شبیر نے حکومت کو مشورہ دیا کہ تعلیم پر خرچ میں اضافہ کرنے کے علاوہ سرکاری اسکولوں کی تعداد میں اضافہ کے متعلق اقدامات کئے جائے اور سرکاری اسکولوں میں اعلی و معیاری انفراسٹرکچر فراہم کیا جائے تاکہ طلبہ سرکاری اسکولوں میں داخلہ کی سمت راغب ہو سکیں۔ جناب سید الطاف حیدر رضوی نے کہا کہ سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ حکومت کی جانب سے معیاری سہولتوں کی برقراری ممکن ہو سکے۔ انہوں نے اقلیتی سب کمیٹی کی جانب سے دی گئی سفارشات کا بھی تذکرہ کیا۔ مسٹر کڈیم سری ہری نے بتایا کہ ریاست میں موجود سرکاری اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے تمام تجاویز کا جائزہ لیتے ہوئے اقدامات کئے جائیں گے۔ سابق میں سرکاری اسکولوں میں طلبہ واساتذہ کی غیر حاضری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدم نگرانی کے سبب ایسا ہوا کرتا تھا لیکن اب حالات تیزی سے تبدیل ہونے لگے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے سرکاری اسکولوں کی مخدوش عمارتوں کے متعلق کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان عمارتوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور مخدوش عمارتوں کو منہدم کرتے ہوئے ان کی جگہ فوری نئی عمارتوں کی تعمیر کو یقینی بنایا جا رہا ہے ۔ اس کیلئے بھی سرواسکھشا ابھیان سے رقومات کی اجرائی عمل میں لائی جا رہی ہے ۔مسٹر کڈیم سری ہری نے سرکاری اسکولوں سے تیز رفتار ترک تعلیم کے رجحان میں اضافہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ترک تعلیم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں اور نہ ہی ریاست کے کسی ضلع میں بھاری تعداد میں ترک تعلیم کا رجحان پایا جاتا ہے۔