رات کے گذرتے ہی اور ایک رات آئی
آپ تو یہ کہتے تھے دن نکلنے والا ہے
حکومت کے ابتدائی 100 دن
نئے لیڈر کو حکومت کی ذمہ داری مل جاتی ہے تو اپنی صلاحیتوں کو تیزی سے بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی طاقت کے بل پر ہرکس و ناکس کو پریشان کرنے کو ہی وہ بہتر نظم و نسق سمجھتا ہے۔ ابتدائی حکومت کے 100 دن کو ترجیحی اساس پر شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی نئی حکومت اور اس کا سربراہ 100 دن کے اندر اپنے منصوبوں کے ذریعہ برسوں سے رائج اصول یا دیرینہ خرابیوں کو یکلخت بھولنے کی ٹھان لیتا ہے تو یو پی میں آج رونما ہونے والی تبدیلیوں کی طرح صورتحال عیاں ہوتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے جیسے ہی چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لیا ہے، حکومت کے ہر شعبہ میں اپنی قابلیت اور حاکمیت کو ٹھونس کر ساری سرکاری مشنری کو چوکس اور متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ سرکاری عہدیداروں کو ہدایت دی جارہی ہے کہ ریاست یو پی کی تیزتر قی کے لیے دن رات محنت کریں یعنی 18 تا 20 گھنٹے کام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ سابق حکومت نے جو اچھے کام کئے تھے انہیں بدل کر اپنے فیصلوں کو مسلط کرنے کے علاوہ سینئر اور ریٹائرڈ آفیسرس کو جنہیں دوبارہ خدمات پر مامور کیا گیا تھا ہٹادینے کا فیصلہ کیا گیا۔ تقریباً پانچ درجے ایسے آفیسرس ہیں جن کو وظیفہ کے بعد بھی طویل مدت کے یلے توسیع دی گئی تھی، آدتیہ ناتھ کا سرکاری نظم و نسق ان ریٹائرڈ آفیسرس کو گھرکا راستہ دکھا چکا ہے۔ اب چیف منسٹر کے 100 دن کے کام کاج کے بعد ریاست کو واقعی ترقی حاصل ہوتی ہے تو یہ ماباقی ریاستوں کے چیف منسٹروں کے لیے ایک زبردست مشاہداتی تجربہ ہوگا۔ مگر سیاسی اور حکمرانی کا تجربہ رکھنے والوں کو یوگی آدتیہ ناتھ کی حرکتیں پسند نہیں آرہی ہیں۔ ظاہر بات ہے جو لوگ سیاسی وفاداری کے عوض برسوں سرکار کی مفت روٹیاں توڑ رہے ہیں انہیں اس نعمت سے محروم کردینے کی شکایت ضرور ہوگی اور جب ناراضگیاں پیدا ہوتی ہیں تو ایک بہتر نظم و نسق دینے کا خواب بھی چکناچور ہوجاتا ہے۔ 100 دن کا منصوبہ بناکر اس پر عمل کرنے کا اعلان کرنا ایک اچھی جستجو ہے مگر اس کو سختی سے روبہ عمل لانے کے لیے سارے سرکاری نظم و نسق کو الٹ پلٹ کر رکھ دینے کی کوشش ناسمجھی کی حرکت یا نادانی کہی جاسکتی ہے۔ انتخابات کے دوران ہر ایک سیاسی پارٹی اپنا منشور بناتی ہے اور انتخابی مہم کے دوران وعدے بھی کئے جاتے ہیں مگر اقتدار ملنے کے بعد حکمراں پارٹی اپنے اعلان کو پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ یو پی میں بی جے پی کی حکومت بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے گورکھپور کے ایم پی کو چیف منسٹر بنایا۔ اب اس چیف منسٹر کی دوڑ دھوپ کو دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ وقت سے آگے چل رہے ہیں۔ جو کوئی وقت کے آگے چلتا ہے اس کی رفتار کے بارے میں لوگوں کی رائے بدلنے لگتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نو منتخب چیف منسٹر نے زیادہ مسائل پیدا کرنے والے فیصلے کرنے شروع کئے ہیں۔ ایک فیصلہ مسالخ بند کردینے کا ہے تو دوسرا فیصلہ روزگار سے محروم ہونے والے لاکھوں افراد کے مستقبل کا ہے۔ یو پی میں بڑے جانور کے گوشت کو بند کردیا گیا اس سے کروڑہا روپئے کا نقصان اور ہزاروں بے روزگار ہوگئے۔ اینٹی رومیو اسکواڈ کے ذریعہ بے قصور نوجوانوں کو ہراساں کرنے کا پولیس کو لائسنس دے دیا گیا۔ آدتیہ ناتھ کو یو پی کا چیف منسٹر بنائے جانے کی ٹائمنگ پر ساری دنیا کے بڑے اخبارات کے سوال اٹھائے ہیں۔ تنقید کرنے والوں نے یہ تک کہہ دیا کہ چوری شدہ ووٹوں کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کی دلسوزی اور فکرمندی نے یو پی کے عوام کی روزمرہ زندگی کو درہم برہم کردیا ہے۔ ہندوستان میں رائے دہندوں کا جذباتی استحصال آسان عمل بنتا جارہا ہے تو ان رائے دہندوں کے دیئے گئے ووٹوں کی طاقت سے اپنی قیادت کا پرچم بلند کرتا ہے تو پوری آسانی سے نظم و نسق پر بھی حاوی ہوجاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ انصاف اور بنیادی حقوق کیا ہوتے ہیں۔ روزگار کے مواقع کس طرح پیدا کئے جاتے ہیں۔ یو پی میں روزگار سے محروم کرنے کے مواقع تلاش کرنے والی سیاسی قیادت کو وہاں کے عوام کب تک برداشت کریں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ یو پی میں نئی حکومت نے ایسے ایسے جوہر پارے دکھانے شروع کئے ہیں کہ انہیں منتخب کرنے والے عوام ہی وقت آنے پر انہیں سبق سکھائیں گے۔