حکومت کی مسلمانوں سے اچانک ہمدردی پر سوالیہ نشان

نامزد عہدوں پر 5 مسلم قائدین کا تقرر روایات کے مغائر، اخبار ’سیاست‘ کی تحفظات تحریک سے حکومت پریشان

حیدرآباد۔ یکم / مارچ (سیاست نیوز) نامزد عہدوں پر تقررات کے سلسلے میں حکومت کو مسلمانوں سے اچانک ہمدردی پر سیاسی حلقوں میں مختلف سوالات کئے جارہے ہیں ۔ ایسے وقت جبکہ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین گزشتہ تین برسوں سے نامزد عہدوں کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے چیف منسٹر نے اچانک 5 قائدین کو مختلف اداروں کا صدرنشین نامزد کردیا ہے ۔ چیف منسٹر نے 5 کے منجملہ 4 ایسے اداروں پر تقررات کئے جو عام زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح کے اداروں پر مسلم قائدین کو نامزد کرنے کی روایت نہیں ہے ۔ چیف منسٹر سے پارٹی کے اقلیتی قائدین نے گزشتہ تین برسوں میں بارہا تقررات کے سلسلے میں نہ صرف نمائندگی کی بلکہ اپنی مایوسی کا تک اظہار کیا تھا ۔ اس کے باوجود تقررات کا عمل شروع نہیں کیا گیا ۔ عام زمرہ کے ادارے تو چھوڑیئے اقلیتی اداروں پر تقررات نہیں کئے گئے ۔ اچانک 5 قائدین کو صدرنشین نامزد کرنے کا فیصلہ یقینی طور پر سیاسی مقاصد پر مبنی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے مسلم مسائل اور خاص طور پر مسلم تحفظات کے مسئلے پر باقاعدہ تحریک کے آغاز سے ٹی آر ایس حکومت پریشان ہے ۔ مسلم تحفظات کے مسئلہ پر روزنامہ سیاست نے بھی ریاست بھر میں مہم چھیڑ رکھی ہے جس کے تحت حکومت کو 12 فیصد تحفظات پر عمل آوری سے متعلق وعدہ کی یاددہانی کرائی جارہی ہے ۔ ان تحریکات سے مسلمانوں میں حکومت کے تعلق سے پائے جارہی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے چیف منسٹر نے اچانک نامزد عہدوں پر مسلمانوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ پیام دیا جاسکے کہ حکومت مسلمانوں کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے ۔ پارٹی کے بعض قائدین نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مسلم تحفظات کی تحریک سے حکومت کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقلیتی اداروں کو چھوڑکر عام زمرہ کے اداروں پر تقررات کئے گئے ۔ اگرچہ عام زمرہ کے یہ ادارے کوئی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہے اور ان پر فائز افراد اقلیتوں کے حق میں اپنے اداروں سے کوئی خاطر خواہ کام انجام دینے کے موقف میں نہیں ۔ پھر بھی چیف منسٹر چاہتے ہیں کہ عام مسلمانوں کو یہ پیام دیا جائے کہ حکومت کس قدر مسلمانوں کے بارے میں فکر مند ہے ۔

تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدرنشین پروفیسر کوڈنڈا رام نے مسلم تحفظات کے مسئلہ پر اضلاع کے مسلم قائدین ، سماجی جہت کار اور دانشوروں سے ملاقاتوں کا آغاز کردیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریاست بھر میں بیک وقت یہ تحریک شدت کے ساتھ شروع کی جائے ۔ اس تحریک کے علاوہ روزنامہ سیاست کی جانب سے گزشتہ تقریباً ایک سال سے چیف منسٹر کو تحفظات کے بارے میں وعدے پر عمل آوری کیلئے مطالبہ کیا جارہا ہے اس سے عام مسلمان حکومت کی سنجیدگی پر اندیشے ظاہر کررہے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ مسلمانوں میں پائے جانے والی  بے چینی اور تحفظات کی تحریک سے جڑنے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے حکومت نے تقررات کا یہ حربہ استعمال کیا ہے ۔ عام مسلمانوں کا احساس ہے کہ ان تقررات سے پارٹی کے چند قائدین کو ضرور فائدہ ہوسکتا ہے لیکن عام مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ۔ چیف منسٹر نے دراصل سیاسی بازآبادکاری کے تحت اپنے قریبی افراد کو وفاداری کے صلہ کے طور پر یہ عہدے فراہم کئے ہیں ۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایسے قائدین اور کارکن جو 2001 ء سے وابستہ ہیں اور تلنگانہ تحریک میں ان کا رول ناقابل فراموش ہے انہیں آج بھی چیف منسٹر کے وعدہ کا انتظار ہے اور آج کئے گئے تقررات نے ایسے قائدین میں مایوسی پیدا کردی ہے ۔ گزشتہ دسہرہ کے موقع پر چیف منسٹر نے اقلیتی قائدین کو تیقن دیا تھا کہ انہیں اقلیتی اداروں کے علاوہ عام زمرہ کے اداروں میں شامل کیا جائے گا ۔ اس کے لئے وزراء اور عوامی نمائندوں سے قائدین کی فہرست بھی حاصل کی گئی لیکن آج کے تقررات سے صاف ظاہر ہے کہ چیف منسٹر نے حقیقی کارکنوں کو نہیں بلکہ اپنے فرزند اور دختر کے سفارش کردہ افراد کو ترجیح دی ہے ۔ اطلاعات یہاں تک ہے کہ مقامی جماعت کے صدر نے کل چیف منسٹر سے ملاقات کے موقع پر شہر سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سرگرم قائدین کو اہم عہدے دیئے جانے کی مخالفت کی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ 5 کارپوریشنوں میں ایک غیر اہم ادارہ پر شہر کے پارٹی لیڈر کو نامزد کیا گیا ۔