حکومت کی غفلت سے عثمان نگر تالاب موت کے کنوئیں میں تبدیل

حیدرآباد ۔ 24 ۔ فروری : شاہین نگر میں دو گھر ایسے ہیں جہاں غم کا ماحول ہے ایسا لگتا ہے کہ ان گھروں کے مکینوں کے ساتھ ساتھ ان کے در و دیوار بھی رو رہے ہوں ۔ دراصل 22 فروری کو پیش آئے ایک درد ناک واقعہ میں دو سگے بھائی اور ان کا ایک ہم جماعت اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سارے علاقے شاہین نگر کے لوگوں پر سکتہ طاری ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس حادثہ میں جو سگے بھائی 12 سالہ شیزان احمد صدیقی اور 12 سالہ ریحان احمد صدیقی انتقال کر گئے ہیں ان کے والدین کو اور کوئی اولاد نہیں ہے بلکہ 8 ویں جماعت میں زیر تعلیم رہے یہ دونوں لڑکے اپنے غریب والدین کی امیدوں کا مرکز ارمانوں کا منبع اور تمناوں کا محور تھے۔ لیکن 22 فروری کے دن دو بجے وی آئی پی اسکول کے یہ دونوں طالب علم اپنے ہم جماعت سید جعفر اور دیگر لڑکوں کے ساتھ قریب میں واقع عثمان نگر تالاب پہونچے اور اس میں غرقاب ہو کر اپنے والدین کو زندگی بھر کا غم دے گئے ۔ تمناؤں و خواہشات کا مینار ڈھیر ہوگیا ۔ شیزان اور ریحان جہاں اپنے والدین کے آنکھوں میں آنسو اور ذہن میں پیار بھری یادیں چھوڑ گئے وہیں سید جعفر بھی اپنے پیارے والدین اور بھائی بہن کو ایسا درد دیا گیا جس کا احساس انہیں زندگی بھر ستاتا رہے گا ۔ عثمان نگر تالاب میں ایکساتھ تین کمسن دوستوں کی موت کے بعد شاہین نگر پہونچکر ان مہلوک بچوں کے والدین سے بات چیت اور عثمان تالاب کا جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ کثیر مسلم آبادی کے قریب واقع تالاب بالکل کھلا پڑاہے ۔ اور موت کے کنویں میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ حکومت نے اس کے اطراف جالیاں نصب کرنے کی زحمت تک نہیں کی ۔

یہ علاقہ حلقہ اسمبلی مہیشورم میں آتا ہے اور اسمبلی میں اس حلقہ کی نمائندگی سابق وزیر داخلہ سبیتا اندرا ریڈی کرتی ہیں ۔ مقامی افراد نے بتایا کہ حکومت کے کسی اعلیٰ عہدہ دار یا پھر کسی عوامی نمائندہ کو شاہین نگر پہنچ کر مہلوک بچوں کے غمزدہ والدین سے اظہار ہمدردی کرنے ان کی دلجوئی کی توفیق نصب نہیں ہوئی جب کہ یہ واقعہ ہوئے تین دن ہورہے ہیں ۔ حکومت کلکٹر رنگاریڈی نے ان کے لیے کسی قسم کے معاوضہ کا اعلان تک نہیں کیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق مئیر ٹی کرشنا ریڈی نے غمزدہ خاندانوں کے لیے فی کس دس ہزار روپئے امداد دینے کا وعدہ کیا ۔ شیزان اور ریحان کے 42 سالہ والد خود گردہ کے مرض میں مبتلا ہیں کام کاج کرنے کے قابل نہیں ۔ ان کی اہلیہ گھر میں سلوائی کا کام کرتے ہوئے گھر چلاتی ہیں ۔ اس طرح یہ جوڑا بڑی مصیبت سے اپنے دونوں بیٹوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہا تھا ۔ انہیں امید تھی کہ ان کے دونوں بیٹے بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں گے ۔ لیکن انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے ۔ قدرت کو جو منظور تھا وہی ہوا ۔ عباس احمد صدیقی شاہین نگر میں ایک کرایہ کے مکان میں مقیم ہیں ۔ سارے گھر میں غم ہی غم ہے ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا سب کچھ لٹ گیا ہے ۔ وہ یہی دعا کرتے ہیں کہ کسی دوسرے ماں باپ کے ساتھ اس طرح کا سانحہ ہرگز پیش نہ آئے ۔ مقامی بزرگوں نے بتایا کہ سب سے پہلے اس تالاب کے اطراف آہنی جالیاں نصب کی جانی چاہئے ۔ ورنہ یہ تالاب مقامی بچوں کے لیے موت کا کنواں ثابت ہوتا رہے گا ۔

کیوں کہ 20 دن پہلے بھی ایک لڑکا یہاں غرقاب ہو کر فوت ہوگیا جب کہ چند یوم قبل سید سمیر کی موت ہوئی اس لڑکے کو بچانے کی کوشش میں ان کے ماموں سید محمود بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ سال 2013 میں ایک سال کے دوران عثمان نگر تالاب میں 6 لڑکے غرقاب ہوئے ۔ اس کے باوجود حکومت اور عوامی نمائندوں کو کوئی فکر نہیں ۔ کاش یہ سرکاری اہلکار اور عوامی نمائندے شیزان ، ریحان اور سید جعفر کے والدین کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھتے ان کا درد محسوس کرتے تو ہمیں یقین ہے کہ فوری اس تالاب کے اطراف آہنی جالیاں نصب کرتے جب کہ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں انہیں تالابوں ، باولیوں ، کنٹوں کے قریب جانے نہ دیں ۔۔