تم نے کوشش تو بہت کی تھی مٹانے کی مگر
داغ دل داغ جگر میرے اُبھرتے ہی رہے
حکومت کا مخالف اقلیت ایجنڈہ
عوام کی بھاری اکثریت سے منتخب حکومتخود کو مستحکم سمجھتی ہے اور عوام کی تائید کو سیاسی مفاد کا آلہ کاربناتی ہے، مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت یہی سمجھ کر اقتدار کے مزے حاصل کرنے کے ساتھ اپنے خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری کیلئے کوشاں ہے۔ ملک کو دیگر کئی مسائل درپیش ہیں مگر بی جے پی کا ایجنڈہ ملک کی اقلیتوں کو مختلف عنوانات سے پریشان کرنا، ان کے پرسنل لاء میں مداخلت کرکے اپنے سیاسی دھارے کو مزید طاقتور بنانا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی مقدمات کا محور دیگر مقدمات سے زیادہ بابری مسجد، تین طلاق، یکساں سیول کوڈ جیسے موضوعات میں رکھا گیا، ان میں مخالف اقلیت پالیسیاں ہی اکثریتی موقف کی حامل حکومت کا پسندیدہ مشغلہ بن گئی ہیں۔ مہاراشٹرا میںبیف پر پابندی، اب یو پی میں مسالخ بند کردینے کا اقدام، گاؤ کشی کے خلاف مہم میں شدت وغیرہ اقدامات کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ملک میں بڑھتی دائیں بازو کی شدت پسندی کو نظرانداز کردیا جانا لگا ہے۔ ہندوتوا کے کیڈرس کی شدت پسندی کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھائی جاسکتی کیونکہ یہ طاقت راست حکمراں طبقہ کی سرپرستی میں سرگرم ہے۔ حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں میں ایسے قوانین کو نظرانداز کرانا شامل ہے جس کے اطلاق سے مسلم طبقہ بری طرح متاثر ہوجائے۔ اس طرح کے قوانین کی کم از کم 3 مثالیں ہمارے سامنے ملتی ہیں، ایک حقوق جائیداد، شہری حقوق اور ثقافتی حقوق ان کو سلب کرلیا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں پر کیا گذرے گی وقت اور حالات ہی بتائیں گے۔ حکومت یکساں سیول کوڈ، سٹیزن شپ کے قانون ترمیمی بل 2016 اور انیمی پراپرٹی ( ترمیم اور تبدیلی کا بل 2016 کو منظور کرانے کوشاں ہے۔ راجیہ سبھا میں اب طاقت میں ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں اہم وعدہ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنا ہے ، تین طلاق کو ختم کرانا ہے ۔ اس موضوع پر مسلمانوں کا موقف واضح ہونے کے باوجود حکومت اس مسلم پرسنل لاء میں وزارت کی ضد کو برتری دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی نمائندگی کے بعد حکومت کو یہ واضح ہونا چاہیئے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے شرعی معاملوں میں مداخلت کرکے اختیارات کا بیجا استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ واضح کرتا آرہا ہے کہ مسلمانوں میں 3 طلاق، حلالہ اور کثرت ازدواج کے خلاف درخواستیں قابل قبول نہیں ہیں۔ حکومت کی ایماء پر یا خانگی تنظیموں کو اُکساکر سپریم کورٹ میں داخل کردہ مخالف طلاق ثلاثہ درخواستیں کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں تو اس پر بحث اور مقدمہ بازی کو طوالت دینے کا مقصد وقت کی بربادی اور ملک کی عدالتوں کا وقت ضائع کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ عدالتوں میں جہاں اہم مسائل کے مقدمات زیر دوران ہیں لاکھوں دیگر کیسس زیر التواء ہیں ان کی یکسوئی سے کئی خاندان اور سماج کی کئی برائیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی، لیکن حکومت اپنے خفیہ ایجنڈہ کو کامیاب بنانے مسلمانوں کے شرعی اُمور سے چھیڑ چھاڑ کررہی ہے۔ دستور ہند میں اس ملک میں مقیم ہر شہری کو اس کی پسند اور مرضی کے مطابق مذہب اختیار کرنے اور اس مذہبی فرقہ کو مذہب کے معاملات اپنے طور پر چلانے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس واضح اور سادہ سی بات کو سمجھتے ہوئے بھی حکومت اپنے یجنڈہ کو ہی ترجیح دے رہی ہے تو یہ افسوسناک ضد اور خرابی کی علامت ہے۔ یہ بات بارہا دہرائی جاچکی ہے کہ دستور کے آرٹیکل 25 میں مذہب کی تبلیغ اور عمل کی بھی آزادی دی گئی ہے۔ اس کھلی صراحت کے باوجود حکومت اپنے لئے جو بہتر سمجھ رہی ہے وہ کرگذرنا چاہتی ہے تو یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا۔ حکومت کے رویہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوری اور پارلیمانی عمل کو نقصان پہنچا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ملک میں دیگر مذاہب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنے کی دستوری اجازت کو نظرانداز کرنا سراسر مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ سیاسی مقصد براری اور فرقہ پرستانہ سوچ کے ساتھ تیار کیا جانے والا قانون ہندوستان میں مقیم اقلیتوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کی غرض سے تیار کیا جارہا ہے۔ حکومت واضح طور پر مسلمانوں کے حقوق کو ایک منظم طریقہ سے نشانہ بناکر ان کا مستقبل تباہ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے مسلمانوں نے ابھی تک کوئی تیاری نہیں کی ہے۔ مسلمانوں کے رویہ کے تعلق سے یہی افسوسناک پہلو سامنے آتا ہے کہ انہوں نے ہنوز اپنے ماضی اور حال کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔