حکومت کا سیاسی جال

ہندوستان میں ان دنوں سیاسی جال پھیلانے کا کام بہت آسان ہوگیا ہے ۔ اس لیے حکومت اُن لوگوں تک اپنا ہاتھ دراز کررہی ہے جو انسانی حقوق کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں ۔ دلتوں اور مظلومیت کا شکار افراد کے حق میں آواز اٹھانے کی کوشش شاید موجودہ حکومت میں جرم ہوگیا ہے ۔ دلتوں اور قبائیلوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو پس ہمت کرنے کی غرض سے ان پر پولیس کا جال پھیلایا گیا ۔ جمہوریت کو لاحق خطرات کا عملی ثبوت سامنے آنے لگا ہے ۔ ماویسٹوں کے ساتھ رابطہ کے شبہ میں پولیس نے انسانی حقوق کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیا ہے ۔ اس گرفتاری کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اس سال کے اوائل میں مہاراشٹرا میں ذات پات کی بنیاد پر تشدد پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ جن پانچ نامور سماجی جہدکاروں کو گرفتار کیا گیا ان میں سدھا بھردواج ‘ گوتم ناولکھا اور حیدرآباد کے ورا ورا راؤ بھی شامل ہیں ۔

پونے میں پولیس نے بعد ازاں ورنن گاونسلوے اور ارون فریررا کو بھی حراست میں لیا ۔ دیگر بائیں بازو کے وکلا اور دانشوروں کی رہائش گاہوں پر دھاوے کئے گئے ۔ پولیس نے گویا تشدد کے الزام کی آڑ میں ان سماجی جہدکاروں کے خلاف سرکاری تشدد برپا کرتی رہی ہے ۔ پولیس کا دعویٰ یہ کس حد تک درست ہے اس کا جائزہ لینے کے لیے قانون اور انصاف کے کارکنوں کو آگے آنا ہوگا کہ ماویسٹوں کے ساتھ رابطہ کاری کے سلسلہ میں جون میں جن دیگر پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ یہ گرفتاری بھی اس تحقیقات کا حصہ تھی ۔ 31 دسمبر 2017 کو ایک بڑے جلسہ عام کے موقع پر دلتوں کو اکساتے ہوئے ان کارکنوں نے تشدد کو ہوا دینے کی کوشش کی تھی ۔ دراصل پونے میں کورے گاؤں جنگ کی 200 ویں سالگرہ کی یاد میں دلتوں کا ایک گروپ جمع ہوا تھا ۔ دلت اس جنگ کو برطانوی طاقتوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ذات کی حکمرانی کے خلاف لڑائی متصور کرتے ہیں اور یہ لڑائی ذات پات کے خلاف پہلی لڑائی تھی لیکن پونے میں منعقدہ اس ریالی کے ایک دن بعد دلتوں اور رائیٹ ونگ گروپس کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی کیوں کہ ہندو کٹر پسند تنظیمیں اس طرح کی تقریبات منانے کی مخالف تھیں ۔ موجودہ حکومت جن گروپس کی سرپرستی کررہی ہے ان کو راضی و خوش رکھنے کے لیے اگر سماجی جہدکاروں پر شکنجہ کسا جارہا ہے تو یہ سراسر قابل مذمت حرکت ہے ۔ حکمراں ہندو کٹر پسند طاقتوں کو چیلنج بننے والے ان کارکنوں کے خلاف جو کچھ قدم اٹھائے گئے ہیں یہ ملک کے مستقبل کے لیے ٹھیک نہیں ہیں ۔

انصاف کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے والے ان افراد کو سزا دینے کا مطلب کٹر پسند ہندو غلبہ کے خلاف ان کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے ۔ یہ بڑے افسوس کا واقعہ ہے کہ حکومت اور اس کی مشنری ہجومی تشدد میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے سزا دینے کے بجائے پولیس ، وکلاء ، شاعروں اور مصنفین کو گرفتار کررہی ہے ۔ بوکر انعام یافتہ اروندھتی رائے کے بشمول کئی دانشوروں اور سماجی کارکنوں نے یہ ٹھیک کہا ہے کہ یہ ملک بے سمتی کا شکار ہونے جارہا ہے ۔ سیول لبرٹیز کارکن گوتم ناولکھا نے بھی اس طرح کی پولیس کارروائیوں کو اس انتقام پسند اور بزدل حکومت کی جانب سے کی جانے والی سیاسی سازش قرار دیا ہے ۔ اس طرح وہ اپنے خود کے اسکامس اور ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ کارروائیاں کررہی ہے ۔ اگر حکمراں طبقہ اپنی ان حرکتوں کے ذریعہ ملک میں ایک طرح خوف کا ماحول پیدا کررہا ہے تو اس سیاسی سازش کا سیاسی لڑائی کے ذریعہ ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے حکومت مہاراشٹرا اور ریاستی پولیس سربراہ کو نوٹسیں جاری کر کے اس گرفتاری کے عمل کو اصولوں اورطریقہ کار کے مغائر قرار دیا ہے اور اس سے جواب طلب کیا ہے کہ آیا یہ کارروائی انسانی حقوق کی خلاف ورزی متصور نہیں ہوگی ؟۔ بہر حال حکومت نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک موثر بہانہ تلاش کرلیا ہے ۔ ان گرفتاریوں کے شور کی وجہ سے حکومت کی بدعنوانیاں اور خرابیوں پر سے عوام کی توجہ ہٹ جائے گی اور حکومت کی کارکردگی جس قدر ابتر ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جارہا ہے ۔ حکومت اپنے سیاسی بالادستی کی کوشش میں ملک کے اندر افراتفری پیدا کرنا چاہتی ہے تو اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں ۔ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیتے ہوئے حقائق کی روشنی میں حکمرانی کے فرائض انجام دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ بات عام ہوجائے گی کہ حکومت خود کو غیر محفوظ متصور کرنے لگی ہے اور دوبارہ اقتدار کا حصول اس کے لیے مشکل دکھائی دینے لگا ہے اس لیے وہ ایسی حرکتوں پر اتر آئی ہے ۔