حکومت پر دیہاتوں کو فنڈس کی اجرائی میں امتیاز برتنے کا الزام

تلنگانہ بجٹ ’’اوپر شیروانی، اندر پریشانی‘‘ کے مترادف، رکن اسمبلی بی جے پی جی کشن ریڈی کا بیان
حیدرآباد /26 مارچ (سیاست نیوز) رکن اسمبلی بی جے پی جی کشن ریڈی نے تلنگانہ بجٹ کو ’’اوپر شیروانی، اندر پریشانی‘‘ کے مترادف قرار دیا۔ اسمبلی میں تصرف بل مباحث میں حصہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بی جے پی نے جن گرام پنچایتوں میں کامیابی حاصل کی ہے، ان کے لئے فنڈس کی اجرائی میں امتیاز برتا جا رہا ہے۔ جس کی تردید کرتے ہوئے ریاستی وزیر پنچایت راج کے ٹی آر نے کہا کہ مرکز نے دیہی علاقوں کو خود مختار بنانے والی کئی اسکیموں کو منسوخ کردیا اور فنڈس میں کٹوتی کردی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مرکز سے جتنے فنڈس وصول ہوئے تھے، ان میں سے 70 فیصد گرام پنچایتوں کو، 20 فیصد ضلع پریشد کو اور 10 فیصد منڈل پریشد کو روانہ کردیئے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کشن ریڈی الزام تراشی نہ کریں، اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہو تو پیش کریں۔ دریں اثناء جی کشن ریڈی نے ضلع نظام آباد کے 18 مواضعات کے نام بطور ثبوت پیش کئے، لیکن وزیر پنچایت راج نے کہا کہ اس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ منڈل پریشد میں قرارداد منظور کرکے ترقیاتی اقدامات کی انھیں مکمل آزادی ہے، تاہم وہ بی جے پی رکن اسمبلی کے ساتھ ان مواضعات کا دورہ کرنے تیار ہیں، جن کے ساتھ امتیاز برتنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اسی دوران بی جے پی کے قائد مقننہ ڈاکٹر لکشمن نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت سے تلنگانہ کو کتنا فائدہ ہوا ہے؟ اس کے لئے علحدہ مباحث کا اہتمام کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ فینانس کمیشن کی سفارشات قبول کرکے ریاستوں کو دیئے جانے والے 32 فیصد فنڈس کو 42 فیصد کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ کئی یونیورسٹیز کی منظوری دی گئی ہے، 220 میگاواٹ برقی دینے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے لئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بھی مرکزی وزیر پرکاش جاؤڈیکر کی تعریف کی ہے۔ کے ٹی آر نے کہا کہ فنڈس کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ دائیں ہاتھ سے دے کر بائیں ہاتھ سے واپس لے لیا گیا۔ علاوہ ازیں تلنگانہ کے سات منڈلوں کو مرکزی حکومت نے آندھرا پردیش کے حوالے کردیا۔ بعد ازاں جی کشن ریڈی نے ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے نظام کی ستائش پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ہماری تہذیب کے خلاف ہے کہ جن لوگوں نے نظام کے خلاف بغاوت کی تھی انھیں وظیفہ دیا جائے اور دوسری طرف نظام کی ستائش بھی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ حیدرآباد کی آبادی ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، پینے کے پانی کی قلت ہے، گرما کے لئے خصوصی پروگرام تیار نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ حیدرآباد کو استنبول کے طرز پر ترقی دینے کا دعویٰ کیا جا رہا، مگر شہر کی صفائی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔