زور سے ہواؤں کے ٹوٹے تناور درخت
جھک گیا تھا جو سبزہ وہ تو اب بھی باقی ہے
حکومت سیاسی انتقام کی راہ پر
مرکز میں بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ مودی حکومت سیاسی انتقام کی راہ اختیار کریگی اور اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے عمل سے گریز نہیں کیا جائیگا ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اس عمل کا آغاز کردیا ہے جو اندیشے عوام کے ذہنوں میں تھے وہ درست ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ ابتداء ہی سے یہ اشارے ملنے شروع ہوگئے تھے کہ مودی حکومت کسی بھی شعبہ میں اپنے مخالفین کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ سیاسی بازآبادکاری کے اصولوں کے تحت بھی اپنے ہم خیال افراد کو عہدوں سے نواز نے کی تیاری کر رہی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے چند دن کے اندر اندر ہی ان گورنرس کو عہدوں سے استعفیٰ پیش کرنے کیلئے مجبور کیا جانے لگا جنہیں یوپی اے کے دور حکومت میں مقرر کیا گیا تھا یا جن کے کانگریس پارٹی سے تعلقات رہے ہیں۔ یہ اندیشے درست ثابت ہو رہے ہیں کہ حکومت سیاسی وابستگیوں کا خیال کئے بغیر کام نہیں کریگی ۔ اب حکومت نے عملی طور پر بھی اس کا ثبوت دینا شروع کردیا ہے ۔ پہلے تو اس نے کئی ریاستوں کے گورنر سے باضابطہ طور پر خواہش کی کہ وہ اپنے عہدوں سے استعفی ہوجائیں یا پھر انہیں حکومت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ انہیں برطرف بھی کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کے تیور کو دیکھتے ہوئے مغربی بنگال ‘ اتر پردیش اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں کے بشمول پانچ ریاستوں کے گورنر نے اپنے استعفے پیش کردئے ہیں۔ وہاں حکومت نے متبادل انتظامات بھی کردئے ہیں۔ کچھ ایسے گورنرس کو بھی حکومت نے نشانہ بنایا ہے جن کی معیاد کی تکمیل کیلئے صرف چند ماہ کا وقت باقی رہ گیا تھا ۔ حالانکہ کچھ گورنرس حکومت کے عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔اب حکومت نے گورنر ناگالینڈ شریمتی کملا بینی وال کو ان کے عہدہ کی معیاد کی تکمیل سے صرف دو ماہ قبل برطرف کردیا ہے اور اس کا الزام ہے کہ انہوں نے کئی موقعوں پر اپنے عہدہ کا بیجا استعمال کیا ہے ۔ حکومت کے بموجب بینی وال کے خلاف کئی الزامات عائد کئے جارہے تھے اور حکومت نے ان سب کا جائزہ لینے کے بعد انہیں برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس میں کوئی سیاسی انتقام نہیں ہے ۔
حکومت بھلے ہی اس کا اعتراف نہ کرے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کملا بینی وال کے خلاف جو کارروائی کی گئی ہے وہ اختیارات کے بیجا استعمال اور عہدوں کے استحصال کی ایک مثال ہے ۔ کملا بینی وال کے خلاف کارروائی کے پہلے ہی سے اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کیونکہ بینی وال جب گجرات کی گورنر تھیں اس وقت سے ان کے نریندر مودی سے تعلقات اچھے نہیں رہے تھے جو اس وقت گجرات کے چیف منسٹر تھے ۔ اب جبکہ مودی ملک کے کرتا دھرتا بن گئے ہیں اور وزارت عظمی کی گدی پر براجمان ہوگئے ہیں تو ان کے طرز کارکردگی سے واقفیت رکھنے والوں کو یہ اندیشے لاحق تھے کہ وہ ضرور بینی وال کے خلاف کارروائی کرینگے اور واقعتا انہیں برطرف کرتے ہوئے ایک طرح سے ان کی ہتک بھی کی گئی ہے ۔ انہیں خاموشی سے استعفی دینے کا بھی موقع نہیں دیا گیا اور حکومت کے بموجب ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کی وضاحت بھی طلب نہیں کی گئی بلکہ انہیں اچانک برطرف کردیا گیا اور فوری طور پر منی پور کے گورنر کو ناگالینڈ کی اضافی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے ۔ حکومت کی اس کارروائی پر حالانکہ تنقیدیں کی جا رہی ہیں لیکن حکومت کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ اس نے کسی طرح کے سیاسی انتقام کے جذبہ کے تحت یہ کارروائی نہیں کی ہے بلکہ کملا بینی وال کے خلاف الزامات عائد کئے جا رہے تھے اور انہوں نے کئی موقعوں پر اپنے عہدہ کا بیجا استعمال بھی کیا ہے جس کے نتیجہ میں یہ کارروائی کی گئی ہے ۔ اپوزیشن تاہم حکومت کے اس استدلال کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اسے سیاسی انتقام سے تعبیر کر رہی ہے ۔
گورنر کا عہدہ دستوری اتھاریٹی کا ہے اور حکومت نے جس انداز سے کارروائی کی ہے وہ حکومت کے عزائم کو مشکوک بنانے کی وجہ بن رہا ہے ۔یقینی طور پر حکومت کو ایسی کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے اور وہ گورنرس کو برطرف کرنے کی بھی مجاز ہے لیکن جو وجوہات بتائی جا رہی ہیں ان پر حکومت کو یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ اس نے گورنر موصوفہ سے ان الزامات کے سلسلہ میں وضاحت کیوں نہیں طلب کی تھی ۔ حکومت کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے تھی کہ کملا بینی وال کے وزیر اعظم سے تعلقات اچھے نہیں ہیں اور اس کی کارروائی کے منفی اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں لیکن شائد حکومت ان اثرات کے تعلق سے بے فکر ہے اور وہ اپنی اکثریت کے زعم میں کسی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے ۔ خاص طور پر وزیر اعظم مودی جس طرح سے اپنے مخالفین کے خلاف رویہ اختیار کرتے ہیں اسی رویہ کی اس کارروائی میں جھلک دکھائی دیتی ہے ۔