اقلیتوں کے لیے رہائشی اسکولس بھی بجٹ کی عدم اجرائی کا شکار ، صرف خانگی اسکولس نشانہ
حیدرآباد۔7فروری(سیاست نیوز) حکومت تعلیمی اداروں کے متعلق دوہرے معیار کا رویہ ترک کرے۔سرکاری اسکولوں اور کالجس اور خانگی اسکولوں و کالجس کے قوانین میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن خانگی اسکولوں میں میدان و دیگر بنیادی سہولتوں کے متعلق انتظامیہ پر لگام کسنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ سرکاری اسکولوں کی ابتری سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اس کے باوجود ان کے حالات میں تبدیلی لانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں اور اب حکومت کی جانب سے اقلیتوں کیلئے قائم کئے جانے والے رہائشی اسکول ہر مرض کی دوا بنے ہوئے ہیں کیونکہ اقلیتوں کی تعلیمی پسماندگی کے جواب میں اقلیتی رہائشی اسکولوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اور بجٹ کی عدم اجرائی کی شکایت پر اقلیتی رہائشی اسکولوں کو کارنامہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسکالر شپس اور فیس باز ادائیگی کے مسئلہ کی یکسوئی کے متعلق دریافت کئے جانے پر نئے اقلیتی رہائشی اسکولوں کی منظوری کے اعلان کی تفصیل سے واقف کرواتے ہوئے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اقلیتی رہائشی اسکول اقلیتوں کے مستقبل کو تابناک بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ہیں اور ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ہی سہولتیں حاصل رہیں گی۔ خانگی اسکولوں کے ذمہ داروں نے محکمہ تعلیم کی جانب سے کی جانے والی ہراسانی کو نا قابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست میں حکومت کی جانب سے کھولے جانے والے رہائشی اسکولوں کی عمارتوں کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایک ایسی عمارت نہیں ہے جس میں اسکول چلانے کے لئے درکار قوانین کے مطابق تعمیر موجود ہے لیکن ان اسکولوں کو من مانی اجازت نامے دیئے جا رہے ہیں جبکہ خانگی اسکولوں کو نوٹسوں کی اجرائی کے ذریعہ ہراساں کیا جا رہا ہے۔تایا جاتا ہے کہ تعلیمی سال کے اختتام کے پیش نظر محکمہ تعلیم کی جانب کی خانگی اسکولوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس بات کی ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی عمارت کے استحکام کے سرٹیفیکیٹ پیش کریں علاوہ ازیں محکمہ فائر و سیفٹی سے حاصل کئے گئے صداقتنامہ کی از سر نو تجدید کروائیں۔خانگی اسکولوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے عوام کو اس بات سے واقف کروائے کہ شہر میں ایسے کتنے سرکاری و رہائشی اسکول ہیں جو کہ محکمہ تعلیم کے شرائط و ضوابط کے مطابق تعمیر کئے گئے ہیں اور اگر نہیں کئے گئے ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ وہ پہلے ان سرکاری و رہاشی اسکولوں کے خلاف کاروائی کرے جو کہ قواعد کے مطابق تعمیر نہیں کئے گئے ہیں بلکہ من مانی عمارتوں میں چلائے جا رہے ہیں۔اس طرح کی کاروائی کے بعد اگر حکومت یا محکمہ تعلیم کی جانب سے خانگی اسکولوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہے بلکہ وہ واقعی تعلیمی اصلاحات کے لئے سنجیدہ ہے۔سابق میں انجنیئر نگ کالجس کے معاملہ میں بھی حکومت کے اسی رویہ کے سبب ریاست بھر میں نشستیں کم ہوتی چلی گئیں اور اس کے بر عکس جو الزامات انجنیئرنگ کالجس پر عائد کئے گئے اس سے ابتر حالت جے این ٹی یو کالج کی تھی اور اب اسکولوں کے معاملہ میں بھی حکومت کی جانب سے وہی رویہ اختیار کیا جانے لگا ہے۔