حمایت ساگر و عثمان ساگر کے قرب و جوار میں غیرقانونی تعمیرات جاری ’’میرا گاؤں میرے تالاب‘‘ پر حکومت کا نعرہ بے فیض ثابت
حیدرآباد ۔ یکم / اپریل (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کے اقدامات و اعلانات میں تضاد واضح ہوتا جارہا ہے ۔ حکومت نے ریاست تلنگانہ میں موجود 45 ہزار تالاب اور جھیلوں کے تحفظ کا اعلان کرتے ہوئے پنچ سالہ منصوبہ کے تحت ’’مشن کاکتیہ ‘‘ پر 20 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے اور یہ ادعا کیا جارہا ہے کہ دونوں شہروں کے علاوہ ریاست کے دیگر اضلاع میں موجود تالابوں کے تحفظ کے لئے حکومت سخت گیر اقدامات کرے گی اور ان اقدامات میں کسی قسم کی کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی بلکہ ’’ میرا گاؤں میرے تالاب ‘‘ کے نعرے کے ساتھ بہرصورت تالابوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا لیکن اس کے برعکس حکومت تلنگانہ 1996 ء میں عثمان ساگر و حمایت ساگر کے تحفظ کی غرض سے جاری کردہ جی او III کی تنسیخ کی بھی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ حکومت آندھراپردیش نے /18 مارچ 1996 ء کو جھیلوں کے تحفظ کے ماہرین کی کمیٹی سے رپورٹ موصول ہونے کے بعد اس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے جی او ایم ایس III جاری کیا اور اس کے ذریعہ حمایت ساگر و عثمان ساگر کے اطراف و اکناف میں 10 کیلو میٹر کے احاطہ میں کسی بھی طرح کے وسیع تعمیرات پر پابندی عائد کردی تھی ۔
ان سرکاری احکامات کے تحت دونوں تالابوں کے شکم کے اطراف 10 کیلو میٹر کے حدود میں تعمیرات پر امتناع کا اثر 6 منڈلوں کے 84 مواضعات پر پڑرہا ہے یہ بات صحیح ہے کہ اس جی او کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی تعمیرات عمل میں آچکی ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی کوئی عام آدمی اس جی او کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیری کام انجام نہیں دے سکتا بلکہ جو بھی تعمیرات انجام پائی ہیں وہ بھی اس جی او کی رو سے غیرقانونی ہیں اور ان عمارتوں کو اجازت حاصل نہیں ہے ۔ اس کے باوجود تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ حکومت کی جانب سے اس جی او کی تنسیخ کا راست نقصان عثمان ساگر و حمایت ساگر پر ہوگا چونکہ ماہرین کے بموجب اگر اطراف 10 کیلو میٹر کے حدود میں عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں تدریسی صورت میں تالاب خشک ہوجائیں گے چونکہ پانی تالاب تک پہنچنے کے لئے جو راہداریاں و نہریں ہیں وہ متاثر ہوجائیں گی ۔ جی او III کے تحت جو منڈل آتے ہیں ان میں شمس آباد ‘ شاہ آباد ‘ معین آباد ‘ شنکرپلی ‘ چیوڑلہ اور راجندر نگر شامل ہیں ۔ اگر ان علاقوں پر موجود پابندی ہٹادی جاتی ہے تو ایسی صورت میں زمینوں کی تجارت میں مصروف تاجرین کو کھلی چھوٹ فراہم کرنے کے مترادف ہوگا چونکہ ان علاقوں میں اونچی و وسیع تعمیرات کی اجازت نہیں ہے ۔ جس کے سبب ان علاقوں میں زمینوں کی تجارت ٹھپ تصور کی جاتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے جھیلوں ‘ تالابوں اور کنٹوں کے علاوہ نہروں کے تحفظ کے لئے چلائے جانے والے ’’مشن کاکتیہ‘‘ کا بنیادی مقصد تالابوں کے شکم کو غیر مجاز قبضوں سے پاک بناتے ہوئے انہیں محفوظ کرنا ہے
اور حکومت اور محکمہ آبپاشی کا نشانہ ریاست تلنگانہ کے 45 ہزار جھیل ‘ تالاب ‘ کنٹے و نہریں ہیں لیکن دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کو پینے کا پانی سربراہ کرنے والے دونوں اہم تالابوں کے متعلق حکومت کی جانب سے اختیار کردہ امر یہ ناقابل فہم ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے عثمان ساگر و حمایت ساگر کے شکم کے اطراف اندرون 10 کیلو میٹر حدود میں عائد پابندیوں کو برخاست کرنے یا ان میں نرمی کے متعلق منصوبہ بندی میں مصروف ہے جس سے حکومت کے قول و فعل میں تضاد ثابت ہوتا ہے ۔ رکن پارلیمنٹ چیوڑلہ مسٹر وشویشور ریڈی نے بتایا جاتا ہے کہ انتخابات کے دوران رائے دہندوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کامیاب ہوجانے پر اس جی او کو منسوخ کروائیں گے ۔ اس طرح ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے بموجب چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ بھی اس جی او کی تنسیخ کے متعلق سنجیدگی سے غور کررہے ہیں ۔ راجیو گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ شمس آباد بھی اس ممنوعہ حدود میں شامل ہے اور ایرپورٹ انتظامیہ یعنی جی ایم آر کمپنی بھی اس جی او کو منسوخ کروانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ اسطرح اس حدود میں موجود جائیدادوں کے مالکین بالخصوص بااثر افراد اس جی او کی تنسیخ کروانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان حدود میں موجود امتناعی احکام برخاست ہوں اور جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہوسکے ۔