کسانوں سے خائف، مسلمانوں کی مخالفت سے برآمد ہونے والے نتائج سے لاپرواہ
حیدرآباد۔27مئی (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کے پاس ریاست میں موجود کسانوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اگر مسلمانوں اور کسانوں کی اہمیت اور انہیں فراہم کئے جانے والے بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانو ںکی حکومت تلنگانہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے حکومت کی مخالفت کے کیا نتائج برآمد ہوں گے جبکہ ریاست میں کسانوں کے لئے شروع کردہ اسکیم ’’رعیتو بندھو‘‘ جس میں 58لاکھ کسانوں کا احاطہ کرتے ہوئے ان پر 12 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ تیا رکیا گیا ہے اور اس منصوبہ کے تحت حاصل کئے گئے چیکس کو منہاء نہ کروانے کے کسانوں کے فیصلہ سے حکومت خائف ہے جبکہ ریاست میں اعداد و شمار کے مطابق 44 لاکھ 65 ہزار مسلمانوں کے بجٹ کی عدم اجرائی پر حکومت کو کوئی خوف یا خدشہ لاحق نہیں ہے کیونکہ گذشتہ 4 برسوں سے بجٹ میں اضافہ کے اعلانات کئے جا رہے ہیں لیکن ان 4 سالوں میںکوئی ایک مالی سال بھی ایسا نہیں گیا جس میں 100 فیصد بجٹ جاری کیا گیا ہو۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے چلائی جانے والی رعیتو بندھو اسکیم کے سلسلہ میں ریاستی حکومت نے فی ایکڑ کسانوں کو 8ہزار کی فراہمی کا اعلان کیا ہے اور اس اسکیم کے تحت ریاست کے 58 لاکھ کسانو ںکا احاطہ کیا جا رہاہے جبکہ ریاست میں 44لاکھ 65ہزار مسلمان رہتے ہیں ان کے لئے بجٹ جاریہ مالی سال کے دوران 2000کروڑ مختص کیا گیا ہے اور اس تخصیص کا کتنا حصہ سال کے اختتام تک جاری کیا جائے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔حکومت تلنگانہ کی جانب سے کسانوں کیلئے شروع کردہ اسکیم قابل ستائش ہے لیکن کیا ریاست میں زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی قدر و قیمت ان کسانو ں جتنی بھی نہیں ہے!ریاست میں مسلمانوں کے لئے مختص کردہ بجٹ 2000 کروڑ کو 44لاکھ 65ہزار نفوس جو مسلم ہیں ان میں تقسیم کیا جائے تو فی کس 2232 روپئے سالانہ ہوں گے جبکہ کسانوں کے لئے فی ایکڑ 8000 روپئے کی حوالگی اور ان کی جانب سے کی جانے والی پیداوار کی خریدی کا فیصلہ کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں کسانوں کی مسلمانوں سے زیادہ اہمیت ہے اورمسلمانو ںکی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔سرکاری حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ کسانو ںکی ایوان میں نمائندگی کے سبب کسانوں کے مسائل پر ہر کوئی آواز اٹھاتا ہے اور مسائل کے حل کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں اور ان کے لئے اسکیمات بھی تیار کی جاتی ہیں اور ان پر عمل آوری بھی کی جاتی ہے لیکن مسلمانوں کے معاملہ میں ایسا نہیں ہے اور جو نمائندگی ایوان میں وہ حکومت کی نظر میں انتہائی کمزور ہے اسی لئے 12 فیصد کے معاملہ کو برفدان کی نذرکیا جا چکا ہے۔حکومت تلنگانہ کی جانب سے سالانہ مختص کردہ بجٹ کی عدم اجرائی کے معاملہ میں ہی مسلمانوں کے نام نہاد نمائندوں کی خاموشی ہوتی ہے تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے نئی اسکیمات و نئے منصوبوں کی توقع کیا جانا بھی فضول ہے۔حکومت تلنگانہ کی مسلمانو ںکو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے متعلق نمائندگی اور مسلمانو ںکو صرف افطار ڈنر یا کپڑوں کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے انہیں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کیلئے منصوبہ جات پیش کئے جانے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری مسلمانو ںکے منتخبہ نمائندوں کے علاوہ پارٹی میں موجود مسلم قائدین کی بھی ہے۔سرکاری ذرائع کا کہناہے کہ مسلمانوں کی جملہ آبادی کا نصف حصہ شہر میں رہتا ہے اور شہر میں برسراقتدار جماعت کو نشستوں پر کامیابی کی توقع نہیں ہوتی اسی لئے مسلمانوں کی ترقی کے لئے کوئی منظم حکمت عملی تیار نہیں کی جاتی ۔