حکومت افغان اور طالبان

افغانستان میں طالبان کو ہمیشہ کیلئے جنگ بندی کے لئے راضی کروانے کی کوششوں کے درمیان سعودی عرب میں متعین افغانستان کے سفیر سید جلال کریم نے اُمید ظاہر کی کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان طویل جنگ بندی کا معاہدہ کروانے میں سعودی عرب ثالثی کا رول ادا کرے گا۔ اگر سعودی عرب کی جانب سے افغان عوام کی سلامتی و خوشحالی کی خاطر مساعی کی جاتی ہے تو دونوں فریقین طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز تک لانے میں کامیابی ملے گی۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان کی ضیافت میں مذاکرات اور صلح صفائی پر آمادہ کرنے میں سعودی عرب ضرور کامیاب ہوگا۔ افغانستان کی سرزمین کو مزید لہولہان ہونے اور تباہی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں ایک مستقل امن لانے کی مہم چلائی جائے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ہی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی میں توسیع کے لئے آمادہ کیا تھا اور اس سلسلے میں سعودی عرب کا پیغام اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ افغانستان کے عوام، سیاست داں اور قائدین کی یہی خواہش ہے کہ ان کے ملک کی سرزمین امن کا گہوارہ بن جائے۔ ا س ملک میں خودکش حملوں کے ہولناک واقعات کے علاوہ غیرملکی فوج کی کارروائیوں نے امن کو تباہ کردیا ہے۔ افغانستان میں امن لانے کے نام پر امریکی فوجی کارروائیوں کے نتائج صفر ہی نکل رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندوں کی موجودگی کا بھی اس جنگ زدہ ملک کو امن کی جانب لانے کا موجب نہیں بن سکی۔ افغانستان قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے۔ یہاں کی معدنیات اور پٹرول مصنوعات کے اربوں ڈالرس کے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن حکومت کے پاس اپنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ان ذخائر کو نکال سکے۔ جبکہ بین الاقوامی کمپنیاں ملک میں سکیورٹی کے سنگین حالات کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ اس بات کا احساس ہر افغان شہری کو ہونا چاہئے۔ طالبان اور افغان حکومت کو اپنے ملک کی بقاء کیساتھ ساتھ اس کی ترقی کیلئے کام کرنے کیلئے باہم متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت افغان کوئلے، ہوے، تانبے اور سونے سمیت ملک کے وسیع مدنی وسائل نے تحفظ میں ناکام ہوتی ہے تو اندیشہ ہے کہ یہ معدنی دولت آگے چل کر غیرملکیوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ افغان حکومت کو مضبوط بنانے کیلئے ضروری ہے کہ طالبان اور دیگر گروپس آپسی یہی جنگ بندی کا معاہدہ کرلیں اور ملک کی تعمیر نو کیلئے کام کرنے والے ملکوں کے کارکنوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ اگر سعودی عرب، افغانستان کی حکومت اور طالبان کو ماہ رمضان کے موقع پر جنگ بندی میں توسیع کرانے میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ دیگر دنوں میں بھی افغانستان کے اندر امن کی بحالی کیلئے کام کرسکتا ہے۔ شاہ سلمان سے توقع رکھنے والے افغان عہدیداروں کو اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اعلیٰ سطح پر مساعی کرنے کی ضرورت ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال افغانستان پر ان تمام بڑی طاقتوں کی گہری نظر ہے جو اس ملک کو بدامنی کی آگ میں جھونک کر اپنا مفاد حاصل کرنے کا ناپاک منصوبہ رکھتے ہیں۔ افعانستان کی سرزمین کو خونریز واقعات سے بھردینے والی کارروائیوں کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہوسکتا ہے کہ یہاں کسی بھی صورت میں امن قائم نہ ہو۔ بدامنی کی آگ میں جھلستا چھوڑ کر جو طاقتیں کسی موقع سے انتظار میں ہیں۔ ان کو ناکام بنانے کیلئے افغانستان کے تمام فریقین کو ہی باہمی اتحاد و اتفاق، صلح صفائی کی جانب توجہ دینی ہوگی۔ افغانستان کے ہائی پیس کونسل (ایچ پی سی) نے بھی اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں امن مذاکرات کے تعلق سے بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ آئندہ چند ماہ میں افغانستان کو امن کی جانب جانے کی ذمہ داری دونوں فریقین طالبان اور افغان حکومت کو اپنے ہاتھوں لینا ہوگا۔ مذاکرات کے ذریعہ ہی دونوں فریقین افغان عوام کے ئے خوشحالی اور امن لاسکتے ہیں۔ اب افغانستان میں موجود امریکی فوج کو چاہئے کہ وہ اس ملک میں امن کی راہوں کو کشادہ کرنے والے اسباب فراہم کرے۔ جیسا کہ صدر افغان اشرف غنی نے اپنے عوام پر زور دیا کہ امن مذاکرات ہی ضروری ہیں تو امریکہ کو بھی ان مذاکرات کا اہتمام کرنے میں اہم رول ادا کرنا پڑے گا۔