حکومت اظہار خیال کی آزادی پر پابندی لگانے کوشاں

تلنگانہ ‘ پولیس راج میں تبدیل ۔ قوانین میں ترمیم کی تجویز پر تنقید ‘ تلنگانہ کانگریس
حیدرآباد 27 جنوری ( سیاست نیوز ) ترجمان اعلیٰ تلنگانہ پردیش کانگریس ڈی شرون نے اظہار خیال کی آزادی پر روک لگانے حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا چیف منسٹر کے الفاظ امرت اور ہمارے الفاظ زہر ہیں ۔ سوشیل میڈیا سے ملک میں بڑے پیمانے کی انقلابی تبدیلیاں ہونے کا دعویٰ کیا ۔ گاندھی بھون میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرون نے کہا کہ چیف منسٹر تلنگانہ کو پولیس راج میں تبدیل کرنے اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا گلا گھونٹنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ انہیں جمہوریت اور اظہار خیال کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی یا ان کے حکومت کے غلط پالیسیوں ، بدعنوانیوں ، بے قاعدگیوں ، وعدوں کی عدم عمل آوری پر سوال نہ کریں صرف ان کی جئے جئے کریں ۔ جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں ۔ ہم کوئی شاہی حکومت میں نہیں بلکہ جمہوری حکومت میں سانس لے رہے ہیں ۔ عوامی مسائل ، ظلم و زیادتی ، حق تلفی پر روشنی ڈالنا انہیں حکومتوں تک پہونچنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے ۔ اقتدار آتا جاتا ہے ۔ حکمران تبدیل ہوتے ہیں مگر ذاتی ایجنڈے کے تحت جمہوری نظام کو نقصان پہونچانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے ۔ غلطیاں کرنا اور عدلیہ سے پھٹکار کھانا چیف منسٹر کے سی آر کی عادت بن گئی ہے ۔ 506-507 سیکشنس کو تبدیل کرنے کا حکومت کو کوئی اختیار نہیں ہے جو اختیارات نہیں ہے ان کو تبدیل بھی کیا گیا تو وہ عدالتوں میں برقرار نہیں رہ پائیں گی ۔ بلی آنکھ بند کر کے دودھ پیتے ہوئے جس طرح کوئی نہیں دیکھ رہا ہے سمجھتی ہے اسی طرز پر کے سی آر حکمرانی کررہے ہیں ۔ ترجمان کانگریس نے کہا کہ سوشیل میڈیا سے ملک میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں ۔ خواتین کے خلاف جنسی زیادتیوں کی سوشیل میڈیا پر تشہیر کے بعد ہی 2012 میں نربھئے قانون نافذ عمل ہوا تھا ۔ علحدہ تلنگانہ کی تشکیل کیلئے طلبہ و نوجوانوں کے خودکشیوں کی سوشیل میڈیا میں تشہیر کے بعد ہی 2014 میں علحدہ ریاست تشکیل پائی تھی ۔ علحدہ تلنگانہ کی تشکیل پر حکومت سے میڈیا پر دباؤ بنایا گیا جس کے بعد عام شہریوں نے آزاد سوشیل میڈیا سے اپنے مسائل کو پیش کرنا شروع کیا جس سے حکومت ڈر و خوف میں ہے اور اس پر تحدیدات عائد کرنے کوشش کررہی ہے جس کی کانگریس مذمت کرتی ہے ۔ اگر حکومت اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے تو احتجاج کرکے عوام میں شعور بیدار کیا جائے گا ۔ ضرورت پڑنے پر عدلیہ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا ۔