حکم ربانی کو دوسروں تک پہنچانا اہم کام

خانقاہوں کا بنیادی مقصد اصلاح و ارشاد، تبلیغ دین اور اسلام کی اشاعت تھا، آج بہت سی خانقاہوں میں اس کے نظام کی روح فنا ہو چکی ہے، لیکن اس کی روح کو زندہ کرنا چاہئے اور اس کے تن مردہ میں جان ڈالنی چاہئے۔ خانقاہی نظام کو فروغ دے کر اصلاح بین المسلمین اور تبلیغ بین غیر المسلمین کا فرض انجام دینا چاہئے، کیونکہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے۔ ان خانقاہوں کو بزرگوں کے طریقے پر چلانا چاہئے، تب ہی یہ تبلیغ و ارشاد اور روحانی و اخلاقی تربیت کا مرکز ہوں گی۔ اسلام کی جس نعمت سے اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو نوازا ہے اور دین کا جو فہم عطا کیا ہے، ان نعمتوں کو حکم ربانی کے تحت دوسروں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس نیک کام سے گھبرانا نہیں چاہئے، ابتداء میں ہر کام بڑا اور گراں محسوس ہوتا ہے، جس کا بوجھ اُٹھاتے ہوئے خوف سا آتا ہے۔ لیکن فکر نہ کریں، یہ راستے کی وارداتیں ہیں، اس کا زادِ سفر اللہ تعالیٰ نے سورۂ والضحیٰ میں فراہم کردیا ہے۔ اس میں ہمارے لئے سامان تسلی بھی ہے اور مہمیز عمل بھی، ذرا اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ یہ روز روشن اور رات کی تاریکی کی قسم کھاکر کیا بتایا جا رہا ہے کہ رات کے اندھیرے سے گھبراؤ نہیں، اس کے بعد دن کی روشنی پھیلنے والی ہے۔ پھر مزید یہ کہ ’’تمہارے رب نے تم کو بے سہارا نہیں چھوڑا ہے، نہ وہ تم سے ناراض ہے‘‘۔ پھر ایک مژدہ یہ ہے کہ ’’بعد کا دَور تمہارے پہلے دور سے بہتر ہوگا‘‘ یعنی تمہارا مستقبل تمہارے ماضی سے شاندار ہوگا۔ پھر یہ فرمایا کہ ’’تمہارا رب تم کو اتنا نوازے گا کہ تم خوش ہو جاؤگے‘‘۔ سورۂ والضحی اس منزل میں ہمارے لئے تسلی اور طمانیت کا خزانہ ہے۔ جب ہم اور آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لئے کام کرنے نکلیں گے تو دیکھیں گے کہ یہ سورۂ مبارکہ گویا آپ پر اور آپ ہی کے لئے نازل ہوئی ہے۔ پھر اگلی سورۃ الم نشرح میں دیکھیں کہ تنگی کے بعد فراخی کو کیسا لازم کردیا ہے اور مکرر ارشاد کرکے کس طرح یقین دلایا ہے۔ ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں۔ آگے کا کام وہ خود سنبھال لیں گے، جن کا یہ کام ہے، یعنی کوشش کرنا ہمارا کام ہے، پورا کرنا ان کا کام ہے۔ ہم اپناکام کریں اور ان کو اپنا کام کرنے دیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج مبارک تنظیم پسند تھا، اسلام کے پورے نظام میں آپ کو اعلیٰ درجے کی تنظیم ملے گی، خاص طورپر اسلام کے عباداتی نظام پر غور کریں تو اس میں کتنی زبردست تنظیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی ہے۔ سلاسل طریقت میں قادری سلسلہ کے نظم کو مؤرخین سیکڑوں برس سے سراہتے چلے آرہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ پیرانِ پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ایسے پُرآشوب دَور میں آنکھ کھولی، جو تاریخ اسلام کا بڑا بھیانک دور تھا۔ فکر و عمل کی راہیں مسدود ہوچکی تھیں، لوگ غربت و درماندگی کے مہیب غار میں دھکیلے جاچکے تھے۔ طبقۂ امراء نشۂ دولت و اقتدار میں بدمست تھا۔ یہ ایک تاریک دور تھا، لیکن حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلۂ قادریہ کو اپنے اخلاقی و روحانی سرمائے سے ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم فرمایا کہ بعد میں منگولوں کی تاراجی اور قتل و غارتگری بھی اس ’’قادری قلعہ‘‘ کو ہلا نہ سکی۔ اللہ پر بھروسہ کرکے دورِ حاضر میں خانقاہی نظام کو فروغ دینا چاہئے، لیکن ہماری یہ ساری جدوجہد للہیت کے ساتھ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی حیثیت سے ہونی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی شکرگزار بننے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

عملی تشکر یہ ہے کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لئے کام کریں، دین کی تبلیغ کریں اور اصلاح بین المسلمین کا فرض ادا کریں وغیرہ، لیکن لسانی تشکر یہ ہے کہ آپﷺ پر کثرت سے درود شریف بھیجا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی درود اور سلام بھیجو‘‘۔ یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی، جب قریش اور اہل مکہ کی مخالفتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ۱۶، ۱۷ سال کے عرصہ میں انتہاء کو پہنچ گئی تھیں۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کی شکست و ہزیمت کے بعد ان کی ہمتیں بڑھ گئی تھیں۔ مدینہ کے اطراف و اکناف کے قبائل بھی مسلمانوں پر جری ہو گئے تھے۔ عضل و قارہ کے قبائل نے اسلام کی تبلیغ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چند مبلغین مانگے، آپﷺ نے چھ مبلغین کو ان کے ساتھ روانہ فرمادیا۔ راستے میں ان قبائل نے شرافت کی، قبیلہ ہذیل کو ان مبلغین پر چڑھا لائے، چار کو شہید کردیا اور دو کو مکہ لے جاکر دشمنوں کے ہاتھ فروخت کردیا، جن کو اہل مکہ نے شہید کردیا۔ ان ہی دنوں بنوعامر کے ایک سردار کی درخواست پر ۴۰ تا ۷۰ انصاری نوجوان مبلغین کو بھیجا گیا۔ ان کے ساتھ بھی غداری کی گئی، اچانک گھیرکر سب کو شہید کردیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سانحہ پر اتنے مغموم ہوئے کہ آپ ایک مہینہ تک ان بدبختوں کے لئے بددعا فرماتے رہے۔ بنو غطفان مدینہ پر چڑھائی کی تیاری کر رہے تھے اور عبد اللہ بن ابی انھیں مشورہ دے رہا تھا۔ ادھر مکہ میں مدینہ پر حملے کے لئے ابوسفیان کی تیاریاں زوروں پر تھیں، اسی عرصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار مدینہ سے باہر نکلنا پڑ رہا تھا، ان ہی دنوں میں خاکم بدہن، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے سنہ ۵ہجری آگیا۔ قریش، سارے قبائل کو مدینہ پر چڑھالائے اور غزوۂ احزاب پیش آیا۔ یہ مسلمانوں پر سارے قبائل کی متحدہ یلغار تھی۔ ایک طرف دشمنوں کی یہ یلغار تھی اور دوسری طرف مدینہ میں نئی نئی اسلامی ریاست کا وجود ہوا تھا، اصلاحات ہو رہی تھیں، بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین وضع ہو رہے تھے، اسلامی معاشرہ تشکیل پا رہا تھا، انسانیت سرخرو ہو رہی تھی اور تمدن کا ارتقاء ہو رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان پر جتنے احسانات فرما رہے تھے، انسانیت دشمن عناصر آپﷺ کی اتنی ہی ناقدری کر رہے تھے۔ ان حالات میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، جس میں مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا۔ مطلب یہ تھا کہ مسلمانو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت تم کو راہ راست نصیب ہوئی ہے، تم ان کے قدر شناس بنو اور ان کے احسانات کو تسلیم کرکے ان کے شکر گزار بنے رہو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق باختہ تھے، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو اخلاقی پستیوں سے نکال کر اخلاق کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ آج تم ان ہی کے طفیل میں اس مقام پر پہنچ گئے ہو کہ دنیا تم پر رشک کر رہی ہے اور دشمن تم حسد کر رہے ہیں۔ کفر و شرک میں آلودہ لوگ ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لئے خار کھا رہے ہیں کہ انھوں نے تم پر احسانات کئے ہیں۔ (اقتباس)