حکایات سعدیؒ

حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ خراسان کے دو درویش اکٹھے سفر پر روانہ ہوئے ۔ ان میں ایک درویش کمزور تھا جو دو دن کا روزہ رکھتا تھا جبکہ دوسرا درویش موٹا تازہ تھا اور وہ دن میں تین مرتبہ کھانا کھاتا تھا ۔ دونوں درویش سفر کرتے ہوئے ایک شہر کی فصیل کے پاس پہنچے تو انہیں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ۔ جب دونوں کی بے گناہی ثابت ہوگئی تو ان کو اس کمرے سے باہر نکلنے کیلئے جب دروازہ کھولا گیا تو لوگ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جو کمزور تھا وہ صحیح سلامت کمرے سے باہر نکل آیا اور جو تندرست و توانا تھا وہ مرچکا تھا ۔ لوگوں میں موجود ایک دانا نے کہا کہ حیرانگی کی کوئی بات نہیں ، جو تندرست تھا وہ بھوک کی سختی برداشت نہ کرسکا اور مرگیا اور جو کمزور تھا وہ بھوک کی سختی برداشت کرنے کا عادی تھا اس لئے بچ گیا ۔ کم کھانے والا فاقہ کشی کو بآسانی برداشت کر لیتا ہے اور وسعت والا جب تنگی دیکھتا ہے تو برداشت نہیں کر پاتا ۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کہ زیادہ کھانا بدبختی کی دلیل ہے ۔
سلوک
ایک مرتبہ حضرت علی ابن الحسین ؓ المعروف امام زین العابدین قحط کے زمانے میں مدینے کے لوگوں میں کھانا تقسیم فرمارہے تھے ۔ ’’ آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟ ‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’ میں تجھے کیسے بھول سکتا ہوں جب ہم کربلا سے قیدی بن کرجارہے تھے تب تو نے ہمیں پتھر مارے تھے ‘‘ ۔ اس نے کہا ’’ آپ پھر بھی مجھے کھانا دے رہے ہیں ؟ ‘‘ آپ ؓ نے فرمایا ’’ اس وقت ہم تیرے در پر آئے تھے اور وہ تیرا سلوک تھا لیکن … آج تو ہمارے در پر آیا ہے اور یہ آل محمدﷺ کا سلوک ہے ۔ ‘‘ سبحان اللہ …