حکایات سعدیؒ

حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ایک خوش مزاج شخص شہد فروخت کیا کرتا تھا اور اس کی خوش مزاجی کی وجہ سے لوگوں کا ایک ہجوم اس کی دکان پر رہتا تھا جس طرح شہد کے گرد مکھیاں جمع ہوتی ہیں ۔ وہ شخص لوگوں میں ایسا مقبول تھا کہ اگر وہ زہر بھی بیچتا تو لوگ اس سے زہر بھی شہد سمجھ کر خرید لیتے ۔ کچھ حاسد اس کی خوش مزاجی اور کاروبار میں روز بروز ترقی سے حسد کرتے تھے اور ہر وقت اسی فکر میں مبتلا رہتے تھے کہ کسی طرح اس کا کاروبار بند ہو جائے ۔ ایک دن وہ حاسد اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے اور اس شخص کی خوش مزاجی کو تلخی میں بدل ڈالا ۔ اب اس شخص کے پاس جو بھی شہد خریدنے آتا وہ اس سے تلخی سے پیش آتا اور یوں اس کی بدکلامی کی وجہ سے اس کا کاروبار ختم ہوگیا اور اس کے گھر میں فاقے ہونے لگے ۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ جانے مجھ سے کونسی غلطی ہوگئی کہ اللہ عزوجل نے میرے حالات بدل دیئے ۔ اب میں سارا دن دکان پر بیٹھا گاہکوں کا انتظار کرتا رہتا ہوں اور ایک وقت تھا جب مجھے ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں ہوتی تھی ۔ بیوی بولی کے پہلے تو خوش مزاج تھا اور اب تو بدکلامی کرتا ہے، تیری بدکلامی نے تیرے شہد کو بھی کڑوا کردیا ہے۔
میرے لئے اس شخص کا کھانا حرام ہے جس کے ماتھے پر دسترخوان کی مانندشکنیں پڑی ہوں اور خود کو مصیبت میں مبتلا نہ کرکہ تیرے نصیب برے ہوں گے ۔ تیرے پاس سونے چاندی جیسا کچھ نہیں مگر کیا تو سعدی جیسی خوش اخلاقی پیدا نہیں کرسکتا ؟
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ پس یاد رکھو کہ تمہارے عمدہ اخلاق لوگوں کو تمہارا گروید بنادیتے ہیں ۔ اگر تم لوگوں کے ساتھ بدکلامی کروگے تو وہ یقیناً تم سے قطع تعلقی اختیار کرلیں گے ۔