سید زبیر ہاشمی، مدرس جامعہ نظامیہ
اﷲ رب العزت نے کائنات میں انبیاء عظام علیہم السلام کے بعد صحابہ رضی اﷲ عنہم اجمعین کو بے انتہا فضیلت والا، بڑے مقام والا، مرتبے والا، تعظیم و تکریم والا اور لائق ذی احترام بنایا ہے، بقول ’’أصحابی کا النجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ صحابۂ عظام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین ستاروں کے مثل ہیں پس جو کوئی ان سب کی اقتداء کریگا، ہدایت پائیگا۔ توانہیں خوش نصیب صحابۂ عظام رضی اﷲ عنہم اجمعین میں ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت زید رضی اﷲ عنہ ہیں۔ جن کی حیات طیبہ کے متعلق بہت ہی اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جائیگا۔
نام : زیدبن حارثہ بن شراحیل بن عبد العزی بن کلب
لقب : حِب النبی {مصطفی کے محبوب}
ولادت : ۳۵ قبل ہجرت وفات: ۸ ہجری
حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ وہ صحابی ہیں، جنہیں یہ اعزاز ملاکہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہیں۔یہی وہ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ ہیں جو آداب مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بڑے بہترین طریقے سے اختیار کئے ہیں۔جن کی عظمت، فضیلت اور اہمیت بے حساب ہیں۔ جیسا کہ انکی فضیلت قرآن مجید سے ثابت ہے جس کا ذکر سورۃ الأحزاب میںاس طرح سے آیا ہے کہ ’’فلما قضی زید منھا۔ الیٰ آخر الآیۃ ‘‘ {سورۃ الأحزاب، آیۃ ۳۷}
حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے واقعات بے حساب ہیں جن میں سے کم سنی کا ایک واقعہ یہ ہے ملاحظہ ہو:
حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ ایک قافلے کے ساتھ اپنے ننھیالی رشتہ دار کے پاس جارہے تھے کہ ایک سخت مصیبت کا شکار ہوگئے۔ بنوقیس نے اُن کے قافلے کو لوٹ لیا۔ حکیم بن حزام نے عُکاظ کے بازار سے کمسن زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کو تقریباً چارسو درہم {۴۰۰} میں خرید کر بنوقیس سے اپنی پھوپھی پہلی زوجہ رسول ام المؤمنین حضرت سیدتنا خدیجۃ الکبری رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لئے خرید لیا۔ جب انہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے نکاح کا اعزاز حاصل ہوا تو انہوں نے زید کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، اس طریقہ سے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کو رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبنیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
اس قافلے کے لُٹ جانے کی خبر سے قیامت ٹوٹ پڑی اور زید کے والدین کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ زید زندہ بھی یا نہیں۔ وہ بیٹے کی جدائی کے غم سے بہت نڈھال اور پریشان تھیں انہوں نے بیٹے کی تلاش کو جاری رکھا۔ حج بیت اﷲ شریف پر آئے ہوئے لوگوں نے زید کو پہچان لیا اور انہیں ان کے والد کی حالت کے متعلق آگاہ کیا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے والد کو جب اپنے بیٹے کی اطلاع ملی تو وہ {والد حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ } مکہ معظمہ پہنچے اور آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر یہ عرض کرنے لگے کہ زید کو فدیہ لے کر آزاد کردیں۔ ہم زندگی بھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ممنون و مشکور رہیں گے۔ اس پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ تمہارے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو میں کسی قسم کا فدیہ لئے بغیر ہی اُسے تمہارے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار ہوں۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کو بلا کر پوچھا گیا: کیا تم انہیں پہچانتے ہو ؟ وہ {حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ} بولے کیوں نہیں ! یہ میرے والد محترم ہیں اور یہ میر چچا ہیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر تم اپنے والد کے ساتھ جانا چاہو تو بخوشی جاسکتے ہو اور اگر میرے پاس رہنا چاہتے تو بھی رہ سکتے ہو۔ یہ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کا امتحان تھا۔ ایک طرف وہ باپ تھا جو کافی مدت سے بیٹے کی تلاش میں تھا، اور حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے دل میں بھی باپ کی محبت کا سمندر موجزن تھا لیکن اسے {حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ } دوسری طرف آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کا عظیم شرف بھی حاصل تھا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ فیصلہ کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے بھی کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوئے، اور فی الفور کہنے لگے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں سے کبھی بھی جدا ہونا پسند نہیں کروں گا۔ اور فرمانے لگے :
یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں آپ کے مقابلے میں بھلا کسی اور کیسے کو ترجیح دے سکتا ہوں! آپ میرے لئے میرے والدین کے مقام پر ہیں۔ اس بات پر ان دونوں {حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے والد اور چچا} نے کہا ارے زید! تو ہلاک ہو، غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہو؟ اور اپنے والد اور چچا اور تمام گھر والوں کو چھوڑ رہے ہو؟ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا : ہاں بے شک میں اُن {حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم} میں ایسی بات دیکھا ہوں جس کے مقابلے میں کسی اور چیز کو پسند نہیں کرسکتا۔ جب رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ سے یہ بات سنے تو خوش ہو کر انہیں اپنی آغوش میں لے لیا اور موجود سب لوگوں کو گواہ بنا کر فرمانے لگے کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جب اُن {حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ } کے باپ اور چچا یہ منظر دیکھے تو بے انتہا خوش ہوئے اور انہیں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ہی چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ {از: ابن سعد}
zubairhashmi7@gmail.com