’’ احمد جلدی آؤ ! ‘‘ امی نے آواز دی ، احمد آیا اور بولا ’’ جی امی ! ‘‘ بیٹا کچھ کھالو ، میں نے کھانا بنادیا ہے ۔ ’’ مجھے بھوک نہیں ہے ، میں پڑھ رہا ہوں ، اسکول کا کام ملا ہے ۔ ’’ بیٹا کچھ کھاو گے تو تم ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط ہوگے ۔ ’’ ٹھیک ہے امی ‘‘ میں ابھی ہاتھ دھوکے آتا ہو ’’ امی نے کھانا دستر خوان پر لگادیا ۔ احمد اور اس کے والد صاحب اکبر نے کھانا کھایا ۔ احمد نے کھانے کے بعد پھر پڑھنا شروع کردیا ۔ احمد کے سالانہ امتحانات ہورہے تھے اسی لئے وہ بھرپور محنت کررہا تھا ۔
احمد کی امی نے اسے یوں محنت کرتے دیکھا تو بولیں ’’ دعا کریں ، خدا ہمارے محنتی بیٹے کو کامیاب کرے ، اس کی اسکول میں اول آنے کی خواہش پوری ہوجائے ’’ اکبر صاحب نے یہ سنا تو مسکرا کر بولے ’’ فکر نہ کرو اسے اس کی محنت کا پھل ضرور ملے گا ، وہ ضرور کامیاب ہوگا ۔ ‘‘ احمد بہت ہی فرمانبردار اور نیک بچہ تھا ۔ اپنے والدین کی ہر بات مانتا ، بڑوں کی عزت کرنا ، نماز اور قرآن پاک پڑھنا اس کی اچھی عادتوں میں سے ایک تھا ۔ آج احمد کا آخری پرچہ تھا ، وہ صبح اٹھا ، نماز پڑھی ، اپنی امی سے دعا لی اور خدا حافظ کہہ کر اسکول روانہ ہوگیا ۔ کچھ دنوں کے بعد اس کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہونا تھا ۔ احمد اور اس کے والدین بے صبری سے اس دن کا انتظار کررہے تھے ، آخر وہ دن آن پہنچا ۔ احمد کے لبوں پر صرف یہی دعا تھی کہ وہ اول آئے ۔ سب بچے ہی نتیجہ جاننے کیلئے بے تاب تھے ۔ احمد کی کلاس میں پوزیشن لینے والے بچوں کے نام لئے گئے ، احمد اس امید سے نام غور سے سن رہا تھا کہ میرا نام بھی پوزیشن ہولڈرز میں بولا جائے لیکن ایسا نہ ہوا ، احمد اول نمبر نہ لے سکا ۔ اس کیلئے وہ لمحہ بہت تکلیف دہ تھا ۔ اس کا نام ٹاپ 5 فہرست میں موجود تھا ، لیکن یہ احمد کیلئے کافی نہ تھا ۔ اسے اول نمبر ہی چاہئے تھا ۔ ٹوٹے دل ، بہتے ہوئے آنسووں کو اپنی آنکھوں میں لئے بوجھل قدموں کے ساتھ وہ گھر آگیا ۔ اس کی امی بے چینی سے اس کا انتظار کررہی تھیں ۔ انہوں نے مسکراکر اسے خوش آمدید کہا ، مگر احمد اپنے آنسو ضبط نہ کرسکا اور امکی کے ساتھ لپٹ کر رونے لگا ’’ امی ! میں اول نمبر نہیں لے سکا ۔ میں نے محنت کی لیکن میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ میں اب پڑھنا چھوڑ دوں گا ۔ ‘‘ امی جانتی تھیں کہ پہلی پوزیشن لینا احمد کا خواب تھا ۔ وہ بولیں ’’ بیٹے ! کیا ہوا جو تم اسکول میں اول نہیں آئے ، تم میرے لئے اول ہی ہو ۔ میرے بیٹے ، تعلیم کا مقصد صرف اول آنا نہیں ہے ۔ علم کا مقصد اپنے اخلاق و عادات کو بہترین بنانا ، اپنی زندگی کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر گزارنا ، فرمانبردار بننا اور بڑے ہو کر ملک و قوم کے نام کو روشن کرنا ہے ۔ یہ ساری خوبیاں تم میں موجود ہیں میرے بیٹے ، اس لئے دل چھوٹا نہ کرو ، تم اول آنے کیلئے کوشش کرتے ہو ، میرے لئے یہ ہی کافی ہے ۔ محنت جاری رکھو ، تب تک جب تک تم اول نہیں آجاتے ۔ خدا تمہیں محنت کا پھل ضرور دے گا ۔ ’’ امی کی باتوں کا احمد پر بہت گہرا اثر ہوا ۔ اس نے ناامیدی کو بھول کر نئے حوصلے اور لگن کے ساتھ محنت شروع کی ، بس فرق یہ تھا کہ اب اس کی محنت اول پوزیشن کیلئے نہیں بلکہ علم حاصل کرنے کیلئے تھے ۔