یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
حماس ۔ فتح معاہدہ
فلسطین کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو کئی واقعات سامنے آئیں گے۔ اتحاد و اتفاق کی تاریخ میں فلسطینیوں نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں حکمرانی کے فرائض کو بھی باری باری پورے کرلینے کا معاہدہ کیا ہے۔ قاہرہ میں حماس اور محمود عباس کی فتح کے درمیان ہوا معاہدہ بلاشبہ اس جنگ زدہ ملک میں ایک اطمینان بخش شروعات کرے گا۔ غزہ کی حکمرانی کی ذمہ داری لیتے ہوئے قومی متحدہ حکومت کا جامع منصوبہ کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف گذشتہ 65 سال سے جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کے لئے حماس اور فتح کا آغاز ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے والے فلسطینی گذشتہ 7 سال سے آپس میں ہی لڑ رہے تھے جو یہودیوں کیلئے خونریز کارروائیاں کرنے کا ایک اہم موقع ثابت ہورہا تھا۔ حماس نے سال 2006ء میں انتخاب جیتنے کے بعد اس علاقہ پر حکمرانی کی ہے لیکن غزہ حکمرانی کے مسئلہ پر حماس و فتح کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ اسرائیل کی زیادتیوں کا شکار فلسطینیوں میں باہمی اختلافات مناسب نہیں تھے اس لئے فلسطینیوں میں اتحاد اس کو فروغ دینے کیلئے قاہرہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش ایک خوش آئند قدم ہے۔ فلسطینی اتھاریٹی کو غزہ میں غیرمعمولی طور پر سرگرم رہنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں یہ ہنوز غیر واضح ہے۔ تاہم حماس اور فتح کے درمیان کسی بھی قسم کا سمجھوتہ ایک علاقائی مضبوطی پیدا کرے گا۔ اگر یہ معاہدہ حماس اور فتح کیلئے سرکاری اثرورسوخ کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوجائے تو اسرائیل کی جارحیت کو کچلنے میں ایک مضبوط اتحاد سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر فلسطینی اتھاریٹی محمود عباس کو اپنی جانب سے ایک بہترین حکمرانی کے فرائض انجام دینے ہوں گے۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں جس طرح کے تیور دکھائے ہیں اس پر مغربی سطح پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ غزہ میں حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل نے جو قیاس مچائی ہے اس کی سابق میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس لئے محمود عباس نے عالمی طاقتوں کے سامنے اسرائیل کی انسانیت سوز کارروائیوں پر چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اب تک اس کو جنگی جرائم کے کیس میں سزاء بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی جنگی جرائم کی عدالت میں لایا گیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کو ان کی تقریر کا اندازہ پسند نہیں آیا مگر حقیقت یہی ہیکہ مشرق وسطیٰ کو آگ کے شعلوں میں جھونکنے میں اسرائیل نے اپنا مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ فتح گروپ کو اس مرتبہ سخت مایوسی اس لئے ہوئی ہے کیونکہ غزہ میں حالیہ اسرائیلی بمباری میں جو تباہی آئی ہے وہ گذشتہ 5 سال کے دوران نہیں دیکھی گئی۔ غزہ جنگ نے محمود عباس کی مقبولیت کو دھکہ پہنچایا تھا۔ اسنے وہ اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے والے گروپ حماس کو اپنے اتحاد میں شامل کرلیا۔ اب اس اتحاد کو مضبوط بناتے ہوئے برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ محمود عباس نے حماس کے ساتھ اتحاد کرکے غزہ پر حکومت کرنے کی جس طرح کوشش کی ہے اسی کے مطابق انہیں نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کو سزاء دینے کیلئے بین الاقوامی جنگی جرائم کی عدالت کو حرکت میں آنا چاہئے۔ فلسطین کے مستقبل کو مغرب کے یکطرفہ فیصلوں کے ہاتھوں ہرگز سپرد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے دونوں گروپس کو اپنی ایک مضبوط سیاسی قوت پیدا کرنا ہوگا کیونکہ جب اسرائیلی فوج فلسطینی علاقوں میں نہتے آدمیوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرنا شروع کردیتی ہے تو مغرب کے انسانی جذبات سرد پڑجاتے ہیں وہیں بات جب حماس یا فتح کی ٹیم منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کرتی ہے تو زمین و آسمان ایک کردیا جاتا ہے۔ اسرائیل نے تازہ جارحانہ کارروائیوں کے بعد غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کی بازآباد کاری کی ذمہ داری اس کی ہی ہے۔ کل تک اسرائیلی فوج کی ہیت قوت کے سامنے صرف حماس لیڈر ہی تھی اب فتح گروپ سے اتحاد ہوا ہے تو یہ گروپ اپنا کردار اور ملک کا نام بہتر بنانا ہوگا۔ 2006ء میں پہلی جنگ کے دوران حزب اللہ نے اسرائیل کو شدید سبق دیا تھا۔ اسی خطوط پر حماس بھی آ گے بڑھ رہا ہے۔ اس لئے فتح گروپ کو اس کا ساتھ دینے کیلئے ہر زاویہ سے کوشش کرنی چاہئے۔ 2006ء کی جنگ میں لبنان کی سرحد سے حزب اللہ نے ٹینک شکن ہتھیار بہت مؤثر طریقہ سے استعمال کئے تھے۔ آج حماس کے پاس بھی یہی ہتھیار ہے۔ حالیہ دنوں کی جنگ اور اس کے بعد لڑائی بندی کے دوران سب سے اہم بات یہی نوٹ کی گئی کہ حماس پہلے سے زیادہ طاقتور ہوا ہے۔ لہٰذا اب حماس اور فتح کے درمیان معاہدہ سے عالمی طاقتوں کو پتہ چلے گا کہ ان کی قوت اور طاقت کتنی ہے۔ ماضی میں جس طرح حماس اور حزب اللہ نے عرب دنیا کی لاج رکھی تھی اب اسی طرح عربوں کی عزت کو محفوظ رکھنے کیلئے اسرائیل پر شکنجہ کسا جانا چاہئے۔