حماس اور فتح میں کشیدگی

فلسطین میں بحالی امن کیلئے جاری کوششوں کے درمیان حماس اور فتح گروپس میں تازہ لفظی جھڑپوں اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے صورتحال بہتر نہیں ہوگی ۔ حماس اور فتح نے حال ہی میں اپنی پرانی سیاسی دشمنی کو ختم کرکے غزہ کی تعمیر کیلئے باہمی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا تھا ۔ 2007 ء سے دونوں گروپس میں سیاسی کشیدگی شدت کو پہونچ چکی تھی لیکن جولائی اور اگسٹ 2014 ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کئی گئی جارحیت انگیز کارروائیوں اور غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کرنے والی بمباری کے بعد مصر کی ثالثی کے تحت جنگ بندی کے تحت اسرائیل نے 50 روزہ جنگ کو ختم کردیا تھا اس کے بعد ستمبر میں حماس اور فتح نے اپنی ماضی کی تلخیوں اور کشیدگی کو ترک کرکے مل جل کر غزہ کی تعمیرنو میں حصہ لینے کا عہد کیا تھا۔ مگر اب صدر فلسطین محمود عباس نے حماس پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں محمود عباس سے ہمدردی رکھنے والے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے دفاتر پر بم حملے کئے ہیں۔ اس طرح کے حملے ان دونوں گروپس میں دوریاں و دراڑ پیدا کرنے کی کوشش یا سازش کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ غزہ پر کنٹرول رکھنے والی تنظیم حماس نے 2007 ء میں فتح کے ساتھ اپنی ایک ہفتہ طویل خانہ جنگی کے بعد غزہ کا اقتدار حاصل کیا تھا ۔ ایک ہی خطہ کے اندر دو گروپس کام کرنے لگتے ہیں تو دشمن طاقتوں کو عوام پر مظالم ڈھانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ یہی حال فلسطینیوں کا ہے یہ معصوم اور بے بس لوگ اپنے لیڈروں کی آپسی رنجشوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ تیسری طاقت اسرائیل نے ان کا عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے ان پر جنگ مسل کردی ہے ۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنا ایک مضبوط مورچہ بنانے کے بجائے حماس اور فتح نے ایک دوسرے کا گریبان پکڑلیا ہے تو یہ سراسر غیرشعوری حرکت ہے ۔ غزہ کی تباہ شدہ بستیوں کی دوبارہ تعمیر کے وقت ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اسرائیلی جارحیت سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے گھروںکو چھوڑکر جن فلسطینیوں نے نقل مکانی کی تھی وہ تمام ایک لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گھروں کو واپس اس امید کے ساتھ ہوئے ہیں کہ غزہ میں امن بحال ہوگا ۔ اگر غزہ کی تعمیر نو کا کام باہمی اختلافات کی نذر کردیا جائے تو غزہ کے عوام کی مصیبتیں مزید بڑھ جائیں گی ۔ محمود عباس کی تقریر سے غزہ میں کشیدگی کو ہوا مل سکتی ہے ۔ اس لئے فلسطینی عوام کو صبر و تحمل سے کام لے کر اپنے علاقہ غزہ کی تعمیرنو پر دھیان دینا چاہئے ۔ مشرق وسطیٰ کی قدر آور شخصیت اور فلسطینیوں کے حق میں مجاہدانہ زندگی گذارنے والے صدر فلسطین یاسر عرفات کی موت کے بعد مشرق وسطیٰ کے خلاف سازشوں کو بروے کار لانے والی طاقتوں کو دن بہ دن اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیابی مل رہی ہے ۔ 11 نومبر 2014 ء کو پیرس کے قریب ایک دواخانہ میں یاسر عرفات کی پراسرار موت کے 10 برس بعد بھی فلسطینیوں کو اس موت کا راز حاصل نہیں ہوا ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ امن دشمن طاقتیں فلسطینیوں کے حقوق کو دن بہ دن سلب کرلینے کوشاں ہیں۔ یاسر عرفات کی 10و یں برسی کے موقع پر محمود عباس اور حماس کی قیادت میں پہلے سے زیادہ سے مضبوط اتحاد کے مظاہرے کی ضرورت تھی لیکن لفظی جنگ اور الزامات و جوابی الزامات نے سارے علاقہ کے امن کو خطرہ کا اشارہ دیدیا ہے ۔

فلسطین کے ان دونوں گروپس کو آپس میں تصادم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے ۔ صیہونی طاقتوں کی چال یہی ہے کہ یہ دونوں گروپ باہم متصادم رہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک توسیع پسندانہ سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ اسرائیل نے 1967 ء میں فلسطینیوں کی اراضی پر قبضہ کرکے اب اس کو متنازعہ اراضی ثابت کرتے ہوئے ہڑپنے کی کوشش شروع کی ہے ، اپنی غاصبانہ کارروائیوں کو درست قرار دینے کیلئے مقبوضہ مغربی کنارہ میں آبادیاں بسارہا ہے ۔ اسرائیل کا سارا آبادیاتی پراجکٹ غیرقانونی ہے اور اس کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بھی قرار دیا جارہا ہے لیکن اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ملکوں نے چشم پوشی اختیار کرکے فلسطینیوں کو ان کی اراضی سے محروم کردیا جارہا ہے ۔ اسرائیل کو توسیع پسندانہ عزائم ترک کرنے کیلئے زور دینا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے مگر مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کی نمائندگی کرنے والے گروپس ہی آپس میں جھگڑنے لگتے ہیں تو دشمن طاقتوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے ۔ یہ متحارب گروپس اپنی دشمنی کے ذریعہ فلسطینی قومی پراجکٹ کو بھی سبوتاج اور تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ وقت دونوں گروپس کو اسرائیل کے خلاف ایک زبردست مزاحمی مورچہ بنانے کا ہے ۔ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے اس کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے فلسطینی قیادت کو بھی باہمی اتحاد و اتفاق سے کام لینا ہوگا ۔