بی جے پی اور تلگو دیشم کی ایک مقامی جماعت کے ساتھ منصوبہ بندی ، وائی ایس آر کانگریس کی مقبولیت پر اثر انداز ہونے کی کوشش
حیدرآباد۔یکم اپریل، ( سیاست نیوز) حلقہ لوک سبھا سکندرآباد میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی اور تلگودیشم نے ایک مقامی جماعت کے ساتھ مل کر اقلیتی ووٹوں کی تقسیم کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ کسی مسلم امیدوار کو کامیابی سے روکا جاسکے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے سلسلہ میں پارلیمنٹ میں بل کی منظوری اور صدر جمہوریہ کی جانب سے 2جون کو تلنگانہ ریاست کے قیام کی تاریخ مقرر کئے جانے کے بعد سے سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں موجود سرکاری ملازمین اور سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے رائے دہندوں کا جھکاؤ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی طرف ہے۔
اسی طرح مسلم اور عیسائی اقلیت کے رائے دہندے بھی وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی تائید کے حق میں ہیں تاکہ کسی بے داغ کردار کے مسلم امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس لوک سبھا حلقہ میں اقلیت اور سیما آندھرا کے رائے دہندے توازن قوت کے حامل ہیں اور ان کی تائید کے بغیر کوئی پارٹی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے حق میں عوامی لہر کو دیکھتے ہوئے مخالف جماعتوں نے اقلیت اور سرکاری ملازمین کے ووٹ تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تلگودیشم بی جے پی اتحاد کے نتیجہ میں سکندرآباد لوک سبھا کی نشست بی جے پی کے حصہ میں آئے گی لہذا بی جے پی 10سال کے بعد دوبارہ اس حلقہ پر کامیابی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی کا موقف اس مرتبہ کمزور دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اس کے منتخب عوامی نمائندہ نے اپنی خدمات کے ذریعہ عوام میں کوئی خاص مقام پیدا نہیں کیا۔ ریاست کی تقسیم کے متعلق یو پی اے حکومت کے فیصلہ نے بھی سیما آندھرا رائے دہندوں کو کانگریس پارٹی سے دور کردیا ہے۔ ان حالات میں سکندرآباد میں راست مقابلہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور بی جے پی کے درمیان دکھائی دے رہا ہے۔ ان حالات میں مسلم و عیسائی اقلیت اور سیما آندھرا رائے دہندوں کے ووٹ فیصلہ کن ہوں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی اس حلقہ میں مسلم ووٹ تقسیم کرنے کیلئے بعض مقامی سیاسی جماعتوں کا سہارا لے سکتی ہے اور ان جماعتوں سے درپردہ خفیہ مفاہمت کی بھی تیاریاں جاری ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ
بی جے پی دیگر حلقوں میں مقامی جماعت کے امیدواروں کے خلاف مضبوط امیدوار میدان میں نہیں اُتارے گی۔ اس خفیہ مفاہمت کے تحت اقلیتی ووٹ تقسیم کرنے کیلئے کسی مسلم امیدوار کو بھی میدان میں اُتارا جاسکتا ہے یا پھر دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی قائد کو امیدوار بناتے ہوئے کانگریس کے ووٹ بینک پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ کے تحت اسمبلی حلقہ جات مشیرآباد، خیریت آباد، جوبلی ہلز، عنبرپیٹ اور سکندرآباد میں مسلم و عیسائی اقلیت کی خاصی تعداد موجود ہے۔ اس کے علاوہ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندان ان اسمبلی حلقوں کے علاقوں میں قیام پذیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے بھی سکندرآباد لوک سبھا حلقہ پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے۔ اقلیتی رائے دہندوں کا احساس ہے کہ اس مرتبہ وہ کسی بھی سازش کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ متحدہ رائے دہی کے ذریعہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنائیں گے۔1980ء کے بعد اکثر یہ دیکھا گیا کہ اقلیتی ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ کانگریس اور بی جے پی نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور متواتر ان پارٹیوں کا ہی قبضہ رہا جبکہ سابق میں 1957ء سے 1980ء تک پانچ مرتبہ مسلم امیدوار اس حلقہ سے منتخب ہوچکے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں لوک سبھا حلقہ سکندرآباد کے تحت مسلم و عیسائی رائے دہندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ طبقات متحدہ طور پر ووٹ کا استعمال کریں تو اس حلقہ کا نتیجہ حیرت انگیز اور تبدیلی کے حق میں ہوگا۔