حلب کی اٹھ سالہ رائٹر متاثرہ شامی بچوں کی پہنچان بنی 

بیروت۔موت کے سایہ میں ایک شامی لڑکی نے دل دہلادینے والی یادیں تحریر کی۔ جنگ سے متاثرہ حلب سے متواتر ٹوئٹ کرنے والی اس لڑکی نے دنیاکو اپنی طرف متوجہہ کیا۔ روز مرہ کی بھیانک بمباری اور کلاس سے باہر نکل کر بھاگنے وہ لمحات یاد کرتے ہوئے اٹھ سال کی بانا العابدشامی بچوں کے حالات بیان کئے۔

اپنی دوست یسمین جواس کے گھر کے قریب میں بم کی وجہہ سے ہلاک ہوئی کو یاد کرتے ہوئے بانا نے اپنی کتاب میں لکھا کہ’’ پھر ایک شخص نے پہاڑوں کے اندر سے ایک نعش نکالی ‘ یسمین کی ماں ڈری ہوئی تھی۔ وہ یسمین ہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا وہ محو خواب ہے اور اس کے اوپر بہت سارا خون اور گرد وغبار تھا۔ میں سکتے میں تھی ‘ کیونکہ اس حالت میں اپنے دوست کو دیکھنے سے ڈر رہی تھی‘‘۔

ستمبر2016میں اس نے ٹوئٹر استعمال کرنا شروع کیا اور اور 360,000فالورس بنائے۔ ٹوئٹس اور تصویریوں کے ذریعہ اس نے شورش زدہ شہر میں زندگی پر ایک دستاویزتیار کیاہے۔ اس کا اکاونٹ ماں فاطمہ چلاتی ہیں۔ٹوئٹر استعمال کرنے والی ممتاز شخصیتیں جس میں ’’ ہری پوٹر اور جے کے راؤلنگ کے مصنف اس کے فالورس میں ہیں۔مگر العابد کے ٹوئٹس کی وجہہ سے کچھ بار تنازع بھی ہوا جب ناقدین نے اکاونٹ کی حقیقت کے متعلق سوال کھڑا کئے فاطمہ کو مورد الزام ٹھرایا کہ اس نے پروپگنڈہ کے لئے بیٹی کا استعمال کیاہے۔

پچھلے سال ڈسمبر میں جنگی کے دوران بانا العابد اور اس کے گھر والے شہر حلب سے ترکی منتقل ہوئے۔ ترکی کے صدر طیب اردغان کے محل میں انہیں رکھا گیا تھا۔رائٹرس نے بانا العابد کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاتھاکہ’’ میں غم زدہ ہوں کیونکہ شامی بچے اسکول نہیں جارہا ہے اور تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں وہ لوگ گھر میں ہیں اور ہر روزمررہے ہیں‘‘۔

یو این ائی سی ای ایف کے مطابق پچھلے چھ سال کی کشیدگی کے پیش نظر 1.7ملین بچے اسکول سے محروم ہیں۔بانا کی خواہش ہے کہ وہ ملک شام واپس جائے اور اس کا خواب ہے کہ وہ ٹیچر او رڈاکٹر کی پڑھائی حاصل کرتے ہوئے یہا ں کے بچوں کو تعلیم او رطبی مدد دونوں کام انجام دے