باغیوں کے کنٹرول والے علاقہ میں معروف دواخانہ تباہ ۔ مہلوکین میں عام شہری اور دواخانہ کا عملہ بھی شامل ۔ جنگ بندی کے خاتمہ کا اندیشہ
بیروت 28 اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام ) شمالی شامی شہر حلب میںگذشتہ 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں کئے گئے فضائی حملوں اور شلباری کے نتیجہ میںکم از کم 60 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ حقوق انسانی نگران کاروں اور کارکنوں نے یہ بات بتائی ۔ شام کی خانہ جنگی میں اب اس شہر میں سب سے زیادہ حملے اور ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ یہاںجنگ بندی کا اعلان ہوا تھا تاہم جنیوا میں شروع ہوئی بات چیت ناکام ہوگئی اور جنگ بندی بھی بے اثر ثابت ہوگئی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ حلب کے باغیوں کے کنٹرول والے علاقہ میں کل رات بھر کی گئی شلباری اور فضائی حملوں کے نتیجہ میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہوگئے اور ڈاکٹرس بغیر سرحدات نامی تنظیم اور بین الاقوامی ریڈ کراس سوسائیٹی کی مدد سے چلنے والا ایک دواخانہ بھی تباہ ہوگیا ۔ اقوام متحدہ کے سفیر برائے شام نے آج امریکہ اور روس سے اپیل کی ہے کہ وہ بات چیت کو بحال کرنے اور جنگ بندی پر عمل آوری کیلئے مدد کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اب موجودہ صورتحال میں جنگ بندی بالکل ختم ہونے کے درپہ ہے ۔ تاہم اس اپیل کے باوجود تشدد میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے ۔ نئے فضائی حملے جمعرات کو رہائشی علاقوں میں بھی ہوئے ہیں جو باغیوں کے کنٹرول والے تھے ۔ ان حملوں میں بھی کم از کم 20 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے جبکہ سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ کم از کم ایک ہزار مورٹار شیل اور راکٹس حکومت کے کنٹرول والے حصے پر بھی داغے گئے ہیں۔
کہا گیا ہے کہ اس شلباری اور حملوں میں بھی کم از کم 14 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ شام کے اعلی اپوزیشن مصالحت کار محمد الوش نے صدر بشار الاسد کی حکومت کو اس تشدد کیلئے ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاریہ تشدد اور موجودہ صورتحال سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ کسی سیاسی کارروائی کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پیش آئے تشدد کے واقعات اور حملوںمیں کم از کم 200 افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ دمشق میں بھی شلباری کی اطلاع ملی ہے جبکہ دارالحکومت کے ایک علاقہ میں کار بم دھماکہ کا بھی ادعا کیا گیا ہے ۔ اس طرح کے واقعات میں دمشق میں کم ہی سنائی دیتے ہیں۔ بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے کہا کہ لڑائی کے نتیجہ میں لاکھوں افراد کو خطرات درپیش ہوگئے ہیں۔ جو فضائی حملے کل رات سے کئے گئے ہیں ان کے نتیجہ میں حلب شہر میں ایک اہم ترین دواخانہ بھی تباہ ہوگیا ہے ۔ چونکہ جنیوا میں قیام امن کی بات چیت مکمل تعطل کا شکار ہے شام کی افواج یہاں اپنی کارروائیوں میں شدت پید ا کرچکی ہیںجن کے نتیجہ میں یہ شبہات تقویت پا رہے ہیں کہ اب زیادہ تر کارروائیاں حلب شہر میں ہوسکتی ہیں۔ باغی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سپاہیوں ‘
جنگی آلات اور اسلحہ وغیرہ کا ذخیرہ کیا جا رہا ہے جس کا مقصد حلب میں فوجی کارروائی کرنا ہی ہوسکتا ہے ۔ حلب شہر میں باغیوں کے کنٹرول والے علاقہ سکری میں واقع ایک معروف القدس دواخانہ کل نصف شب کے فوری بعد شروع ہوئی بمباری میں تباہ ہوگیا ہے ۔ اپوزیشن کے کارکنوں اور بچاؤ ورکرس کے بموجب اس دواخانہ پر ہوئے حملہ میں مرنے والوں میں دواخانہ کے عملہ کے 6 ارکان اور تین بچے بھی شامل ہیں۔ شامی سیول ڈیفنس نے ہلاکتوں کی تعداد یہاں 30 بتائی ہے اور کہا کہ مہلوکین میں دواخانہ کے عملہ کے چھ ارکان بھی شامل ہیں۔ یہ تنظیم سب سے پہلے اس حملہ کے بعد سرگرم ہوئی تھی اور یہاں امدادی سرگرمیاں شروع کی گئی تھیں۔ کہا گیا ہے کہ حملہ میں جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان میں باغیوں کے کنٹرول والے علاقہ کے واحد ماہر امراض اطفال اور ایک ڈینٹسٹ بھی شامل ہے۔ ڈیفنس ایجنسی اور دوسروں کا کہنا ہے کہ کل رات دیر گئے شروع ہوئے حملوں میں اس دواخانہ کو اور اس سے متصلہ عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایجنسی نے کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمارتوں کے ملبہ میںمزید افراد کی نعشیں دبی ہوئی ہوں۔ ملبہ کی صفائی کا کام ابھی شروع نہیں ہوسکا ہے اور اس کے بعد ہی ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کا علم ہوسکتا ہے ۔