حقیقی فکر قرآنی سے انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے

پروفیسر اختر الواسع
رمضان کریم کے مبارک و مسعود ایام ہم پر سایہ فگن ہیں۔ اس کی ہر ہر ساعت میں رحمتوں اور برکتوں کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ ان خزانوں سے اپنے دامن مراد کو بھرنے کے مختلف پہلو ہیں، ایک پہلو اس ماہ میں قرآن کو مرکز توجہ بنانے کا ہے۔ ہر ہوشمند مسلمان پر یہ بات واضح ہے کہ رمضان کا مہینہ قرآن سے خصوصی نسبت رکھتا ہے۔ اس نسبت کا بنیادی عنوان یہ ہے کہ قرآن، جو دنیا میں واحد کتاب محفوظ اور انسانیت کے لیے خدا کے آخری پیغام کی حیثیت رکھتا ہے، اسی ماہ مکرم میں نازل ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ (البقرہ:۱۸۵) اسی طرح دوسری جگہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے اسے (قرآن) لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے۔ (القدر:۱)

حضرت عبداللہ بن عباس؄ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے قرآن لوح محفوظ سے یکبارگی آسمان دنیا پر شب قدرمیں نازل کیا گیا۔ پھر جستہ جستہ وہاں سے رسول اللہﷺ پر نازل ہوتا رہا۔ رسول اللہﷺ پر اس کے نازل ہونے کا آغاز بھی رمضان میں ہوا۔ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام ’’اقرأ باسم ربک الذی خلق…‘‘ کی شکل میں پہلی وحی قرآنی کو لے کر آپﷺ کے پاس تشریف لائے۔ اس طرح رمضان کو دونوں اعتبار سے ماہِ نزول قرآن کا شرف حاصل ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی ایک حدیث جس کے راوی واصلہ بن اسقع؄ ہیں، اور دوسری حدیث جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللّٰہ؄ ہیں، سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کے علاوہ دیگر کتب سماویہ کا نزول بھی رمضان کے مقدس مہینہ میں ہی ہوا تھا۔ ’’آپﷺ نے فرمایا کہ صحف ابراہیم علیہ السلام رمضان کی پہلی رات کو، توریت چھٹے رمضان کو، انجیل ۱۳ویں رمضان کو اللہ رب العزت کی طرف سے متعلقہ انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل کی گئیں۔ (ابن کثیر جلداول، صفحہ ۲۶۸)

گویا خالق کائنات نے اپنے پیغام کو اپنے بندے تک پہنچانے کے لیے جس مہینہ کا انتخاب کیا، وہ شروع سے رمضان کا بابرکت مہینہ ہی تھا۔ اس لیے رمضان کے اعمال خیر میں سب سے زیادہ اہمیت اور اجر عظیم کے حامل عمل دو ہیں:’’روزہ رکھنا اور قرآن کی تلاوت اور اس میں غور و فکر‘‘۔ رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب کرام رمضان کے اعمال میں قرآن کی تلاوت کو سب سے مقدم رکھتے تھے۔ اس تعلق سے حدیث کی کتابوں میں متعدد روایات اور واقعات موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس؄ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اور فراخ دست تھے اور رمضان میں جب حضرت جبرئیل علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی تھی تو آپ کی سخاوت مزید بڑھ جاتی تھی۔ آپﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور باہم قرآن سنتے اور اس کا دور کرتے تھے (بخاری و مسلم) حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں حضرت جبرئیل آپﷺ کے پاس آکر ایک مرتبہ قرآن کا دور کرتے تھے، لیکن جس سال آپ نے پردہ فرمایا اس سال حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو مرتبہ قرآن کا دور کیا۔ (مسلم)

متعدد احادیث میں قرآن پڑھنے کی غیر معمولی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ حدیث میں قرآن کے ایک ایک حرف پر دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ رمضان میں قرآن سے سلف صالحین کے غیر معمولی شغف کے واقعات کثرت کے ساتھ منقول ہیں۔ ابن شہاب زہری کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب رمضان آتا تو وہ فرماتے کہ رمضان قرآن کی تلاوت اور لوگوں کو کھانا کھلانے کا نام ہے۔ حضرت مالک بن انس؄ کے بارے میں بیان کیا جاتاہے کہ وہ رمضان میں علمی مجلسوں سے کنارہ کش ہوکر قرآن پڑھنے میں مشغول و منہمک ہوجاتے تھے۔ اسی طرح حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق یہ ذکر ملتاہے کہ وہ دوسری تمام (نوافل و مستحبات وغیرہ) عبادات سے کنارہ کش ہو کر تلاوت و تدبر قرآن میں لگ جاتے تھے۔ یہ نمونے کے طور پر خیر القرون کی چند اہم شخصیات سے متعلق واقعات ہیں۔ ائمہ و محدثین اور فقہاء کرام کے سوانح کا مطالعہ کیا جائے تو اس تعلق سے ان کے مجاہدے اور ریاضت کے محیر العقول واقعات سامنے آتے ہیں۔

آج ہماری صورت حال بہت مختلف ہے۔ ہم رمضان کو قرآن کے نزول کا مہینہ ضرور تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس حوالے سے ہم اس کے تقاضے کو پورا نہیں کرپاتے۔ ہماری اکثریت رمضان کے پورے مہینہ میں شاید ایک مرتبہ بھی مکمل قرآن ختم نہیں کرپاتی۔ ہم افطار و سحر کی لذتوں میں کھو کر رمضان کے تقاضوں کو، جن میں روزے کے بعد قرآن کی تلاوت سرفہرست ہے، فراموش کردیتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن کا پڑھنا مطلوب ہے اور اس پر اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن کا سننا بھی مطلوب ہے اور یہ بھی اجر عظیم کا ذریعہ ہے۔ رمضان میں تراویح کا ایک اہم مقصد قرآن سننا بھی ہے۔ قرآن میں مومنین کو خطاب کرکے کہا گیا ہے کہ ’’جب قرآن پڑھا جائے تو تم اس کو سنو اور اس پر کان دھرو‘‘ (اعراف) قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہماری بعـض مساجد میں جس برق رفتاری کے ساتھ تراویح میں قرآن پڑھاجاتا ہے، اس سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوپاتا۔ٖ نبی کریمﷺ سے متعلق روایتوں میں آتا ہے کہ آپ قیام لیل میں طویل قرأتیں کیا کرتے تھے، لیکن قرأت قرآن کے درمیان ثواب و عذاب کی آیات پر ٹھہرتے اور ٹھہر کر آگے بڑھتے تھے۔ (احمد)

رسول اللہﷺ بعض لوگوں سے قرآن پڑھوا کر بھی سنتے تھے۔گویا قرآن کے مسنون اعمال میں یہ داخل ہے کہ قرآن کو حسن قراء ت ا ور تجوید کے ساتھ پڑھنے والوں سے پڑھوا کر سناجائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود؄ سے روایت ہے کہ کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’قرآن پڑھ کر سناؤ‘‘۔ میںنے عرض کیا ’’یارسول اللہ! قرآن تو خود آپ پر نازل ہوا ہے، بھلا میں آپ کو قرآن پڑھ کر کیا سناؤں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’میں دوسروں سے پڑھوا کر سننا چاہتا ہوں‘‘۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو سورۂ نساء پڑھ کر سنائی اور جب اس آیت پر پہنچا کہ ’’پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میںسے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کوان لوگوں پرگواہ بنا کر لائیں گے‘‘ (النساء :۴۱) تو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ وہ اپنے سننے والوں کو اگر وہ اپنے دل کے کانوں سے سنیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس تعلق سے قرآن سن کر حضرت عمر فاروق؄ کے ایمان لانے کا واقعہ سبھی کومعلوم ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ، جو ایک بہت بڑے راہزن اورڈاکو تھے۔ انہوں نے ایک دن جب یہ آیت سنی کہ ’’کیا جو لوگ ایمان والے ہیں ان کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے جھک جائیں‘‘۔ یہ سن کر انہوں نے آواز لگائی ’’اے میرے رب! یقیناً وہ وقت آگیا ہے‘‘ اور اسی وقت انہوںنے اپنے اعمال بد سے توبہ کرلی۔

بہرحال رمضان روزے اور تلاوت قرآن کا مہینہ ہے۔ ایک حدیث سے روزہ اور تلاوت قرآن کے درمیان پائے جانے والے ایک خصوصی ربط کا اظہار ہوتاہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریںگے۔ روزہ عرض کرے گا اے رب کریم! میں نے اسے کھانا اور دیگر خواہشات کی تکمیل سے روک دیا تھا۔ میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ قرآن کہے گا میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا، میری شفاعت اس کے لیے قبول کر۔ چنانچہ دونوں کی شفاعتیںقبول ہوںگی۔‘‘ (مسنداحمد)
آخر میں رمضان اور قرآن کے حوالے سے میں ایک اور پہلو پر قارئین کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کروںگا، وہ پہلو قرآن فہمی کا ہے۔ تلاوت قرآن کے حوالے سے ہم اس پہلو کو بالکلیہ فراموش کر ڈالتے ہیں، حالانکہ تلاوت قرآن کا اصل مطلوب و مقصود یہی ہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں قرآن پڑھنے والوں کو قرآن میں غور و تدبر کرنے پر اُبھارا گیا ہے۔ رمضان کی اِن مبارک ساعتوں میں ہمیں تلاوت قرآن کے ساتھ فہم قرآن پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اوپرحضرت عمر؄ اور فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے جو واقعات ذکرکیے گئے ہیں، ان کا تعلق قرآن کے فہم سے ہی ہے۔ قرآن کے الفاظ کی اپنی معنویت واہمیت بلاشبہ مسلّم ہے، لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ قرآن کے معانی و مفاہیم کا اعجازہے، جن پرغورو فکر سے انسان کی کا یا پلٹ ہوجاتی ہے۔