محسن بن عون جابری تیسری و آخری قسط
قیامت کے دن اﷲ کے حکم سے حضرت اسرافیلؑ پہلا صُور پھونکیں گے تو آسمانوں و زمین کے سارے جاندار مرجائیں گے اور پورا عالم مرمٹ کر فنا ہوجائیگااور پھر اﷲ کے حکم سے دوبارہ صُور پھونکیں گے تو سارے مرے ہوئے انسان جی اُٹھیں گے۔ایک نیا عالم قائم ہوگا ۔ سارے انسانوں کو نئی زندگی ملے گی جو ہمیشہ کی زندگی ہوگی ۔ لوگوں کے دل خوف و دہشت سے لرز رہے ہوں گے اور ہر ایک اپنے انجام کا منتظر ہوگا ۔
نیک لوگوں کو اُن کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا اور مجرموں کو اُن کے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال تھمایا جائیگا ۔ نیک لوگ جنت میں عیش و سکون پائیں گے اور باغی لوگ جہنم کے دہکتے انگاروں میں ڈال دیئے جائیں گے اور شفاعت اﷲ کے اذن کے بعد ہوگی ۔
تقدیر پر ایمان : کائنات میں جو خیر و شر بھی ہے یا آئندہ ہونے والا ہے ، وہ سب اﷲ کی طرف سے ہے اور اُس کے علم میں ہے۔ کوئی ذرّۂ خیر و شر اس کے دائرہ علم سے باہر نہیں ہے ۔ اس کا علم ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ انسان کی تقدیر کے دو پہلو ہیں۔ ایک اختیاری اور دوسرا اضطراری ۔ اختیاری پہلو میں انسان کو محدود دائرے میں اچھا یا بُرا عمل کرنے کا اختیار ہوتا ہے ۔ اﷲ کے علیم و خبیر ہونے سے اس اختیار پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ انسان کے اسی اختیار کی بناء پر یوم الحساب اُس کی پُرسش ہونے والی ہے ۔ اضطراری پہلو میں انسان پر بعض اُمور مسلط ہوتے ہیں اور اُس کے اختیار کو اُس میں کوئی دخل نہیں ہوتا مثلاً کسی امیر گھرانے میں پیدا ہونا ، لمبی عمر تک جینا ، خوبصورت و درازقد ہونا اور اولاد عطا ہونا یا نہ ہونا وغیرہ ۔ اضطراری پہلو کے اُمور سے متعلق یوم الحساب ، انسان کی پُرسش نہیںہوگی ۔ تقدیر کے مسئلے میں اُلجھنے اور زیادہ کُریدنے سے بچے ۔ صرف اتنی بات پیش نظر رکھے کہ اﷲ نے نیک عمل کرنے والے مومنوں کیلئے جنت تیار کر رکھی ہے اور بُرا عمل کرنے والے کافروں کے لئے جہنم ۔
اعمال صالحہ کی بنیاد : اسلام میں تمام عبادات اور اعمال صالحہ کی بنیاد ایمان ہے ۔ ایمان کے بغیر نہ کوئی عبادت معتبر ہے اور نہ کوئی نیکی مقبول ہے ۔ ایمان کے بغیر نجات ممکن نہیں ہے ۔ قرآن نے اُسی عمل کو عمل صالح کہاہے جس کا حقیقی مُحرک ایمان ہو ۔ لہذا یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ایمان و عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ اس طرح سورۃ العصر میں بیان شدہ نجات کے چار شرائط کے دو جوڑوں میں پہلا جوڑ ایمان و عمل صالح واضح ہوتا ہے ۔ دوسرا جوڑ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا ہے ۔
عمل صالح کا فطری نتیجہ تواصی بالحق ہے ۔ اگر اجتماعی ماحول خراب ہو تو اس کی خرابی لازماً افراد کی زندگیوں میں سرایت کرے گی ۔ اس سے بچنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ماحول کو تبدیل کردیا جائے ۔د وسری صورت یہ ہے کہ اس ماحول کو تبدیل کرنے کی جدوجہد مسلسل جاری رکھی جائے ۔ اس ضمن میں حضور صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا : جس کا مفہوم ہے کہ تم میں سے جو کوئی بھی بُرائی کو دیکھے ، اُس کا فرض ہے کہ اسے بزور بازو ، نیکی سے بدل دے ۔ پھر اگر اس کی قوت نہ رکھتا ہو تو زبان سے ضرور منع کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل میں ضرور بُرا جانے ۔ اور اس کو نہ روک سکنے پر افسوس کرے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے ۔ جب حق کسی انسان پر مُنکشف ہو ، تو انسان دوستی کا لازمی تقاضا ہے کہ اُسے دوسروں کے سامنے بھی پیش کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان اس سے نفع اندوز ہوں ۔ اس ضمن میں آنحضورؐ نے فرمایا : جس کا مفہوم ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔ آخری درجہ میں یہ انسان کی غیرت اور حمیت کا تقاضہ بھی ہے کہ جس حق کو اس نے خود قبول کیا ہے اس کاپرچار کرے ، اس کا مبلغ اور علم بردار بنے اور اُس کا بولا بالا کرنے کیلئے جدوجہد کرے۔
جب حق کی تبلیغ کی جاتی ہے تو کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ راستہ بڑے صبر و تحمل کا متقاضی ہوتا ہے ۔ آنحضرتؐ کی سیرت ایسے کٹھن مراحل کے واقعات سے پُر ہے ۔
بقول علامہ اقبالؒ کے عمل صالح ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر یہ سب کیا ہیں ؟ فقط نقطۂ ایماں کی تفسیریں ‘‘ ایمان اگر حقیقی ہوجائے تو اس سے عمل صالح ضرور پیدا ہوگا اور عمل صالح اگر پختہ ہوجائے تو لازماً تواصی بالحق پر منتج ہوگا اور تواصی بالحق اگر واقعی حقیقی ہے تو تواصی بالصبر کا مرحلہ لازماً آکر رہے گا ۔
خلاصہ : سورۃ العصر میں بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی تباہی کا فیصلہ صادر فرمادیا ہے سوائے اُن کے جو ان چار شرائط کو پورا کریں یعنی ایمان ، عمل صالح ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی فلاح و کامیابی مذکورہ چاروں شرائط کے مجموعے پر منحصر ہے ۔