راز اُلفت سے پردہ اٹھانا پڑا
سب کو چاک گریباں بتانا پڑا
حقیقت کے خد وخال
ہندوستان سے کیا سیکولرزم رخصت ہورہا ہے ۔ ملک کی جمہوریت پر ایک آمریت پسند لیڈر کا قبضہ ہونے والا ہے ۔ نازیوں کے رول کی یاد تازہ کرنے والے بیانات ہر روز سرخیوں میں آنے سے انتخابات کے اس تجسس بھرے ماحول کی تلخیوں میں کچھ بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ آندھرا پردیش میں ہو یا ملک کی کسی بھی ریاست میں اس وقت ہر طرف فرقہ پرستوں کی آندھی کے چرچے بلکہ سونامی کی بھی خبریں اچھالی جارہی ہیں۔ شہر حیدرآباد کا سیاسی ماحول بھی ملک کے دوسرے حلقوں سے جدا نہیں ہے مگر یہاں مقامی جماعت کی مایوسانہ انتخابی سرگرمیوں نے حریف امیدواروں کو مزید تقویت پہونچانے کا کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ مکاری کی سیاست کے نتائج زیادہ دیرپا اور مثبت اثر انداز نہیں رکھتے ۔ عوام کی اکثریت کو بے وقوف بنانے میں مسلسل کامیاب ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے ۔ بتوں سے سب سے زیادہ امیدیں اور خدا سے نا امیدی رکھنے والوں کو حکمراں طبقے کی سازشوں کی ایک دن گھات اتر جانا پڑتا ہے ۔ ہندوستان میں بہترین مناسب میں سے ایک بہترین منصب رکن پارلیمنٹ کا ہوتا ہے اس کے بعد رکن اسمبلی کا منصب بھی سب کیلئے نور نظر بنتا ہے ۔ہر سیاستداں اس منصب کے حصول کا آرزو مند ہوتا ہے ۔ پارلیمنٹ کے ایوان کے رکن کی حیثیت سے ایک منتخب ایم پی کو پانچ سال تک مسلسل مراعات، فنڈس اور دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایم پی فنڈس کو اپنے حلقہ میں ترقیات اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے خرچ کرنا ہوتا ہے لیکن بعض ارکان پارلیمنٹ کی نا اہلی سے یا دھاندلی سے یہ فنڈ کسی دوسرے میں چلا جاتا ہے ۔ عوام کو اس فنڈ کا ایک معمولی حصہ سے راحت نہیں پہونچائی جاتی ۔ پرانے شہر میں ایم پی فنڈ کا کس حد تک استعمال ہوا ہے یہ آج کی شہری صورتحال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمانی حلقہ کو ترقی دینا قومی بجٹ کا حصہ ہے لیکن منتخب لیڈر کو قومی بجٹ سے ملنے والا حصہ استعمال کرنے میں بد نیتی کا مظاہرہ کرتے دیکھا جائے تو ان کی باز پرس عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ عوام تک یہ خبر پہونچانے کا کام کرنے والوں نے بھی اپنے حصہ کا ذمہ دارانہ کام پورا نہیں کیا جس سے خرابیوں کا سڑا گلا حصہ عوام کے سامنے ابھر کر نہیں آسکا ۔ جن شہریوں کو اپنی گلیوں، محلوں سڑکوں میں سڑے گلے کچرے مٹی کے انبار ،دھول گرد میں اٹی فضاء ہی ہے تو وہ اپنی جانب سے منتخب کئے جانے والے لیڈر کی کوتاہیوں تک نظر دوڑانے کی کوشش نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں ان پر یہ لیڈر پھر مسلسل مسلط رہتا ہے ۔ عوام کو بیدار ہونے کیلئے ایک مضبوط شعور کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان کا لیڈر اتنا چالاک ہے کہ وہ عوام کو باشعور ہونے کا موقع ہی نہیں دے رہا ہے۔ انتخابات میں ان کی چال رائے دہندوں کو گمراہ کردیتی ہے۔ امیر امیدواروں کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا جاتا ہے تو قوت بازو‘‘ سے مطلوب ووٹوں کا حصول یقینی بنایا جاتا ہے ۔ چند واقعات میں تو پارٹی کے متمول امیدوار کو تمام لینڈگرابرس، ناجائز قابضین،غنڈوں و لٹیروں کا ساتھ ملتا ہے ۔ پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے منہ مانگی رقم دی جاتی ہے ۔ امیدوار کھڑا نہ کرنے کیلئے بھی منہ مانگی رقم لی جاتی ہے ۔شہر میں ہوں یا اضلاع میں جہاں مسلم ووٹوں کی طاقت اور توازن کا مضبوط رجحان پایا جاتا ہے وہاں نام نہاد جماعت نے مسلمانوں کے ووٹوں کو بیچ کر اپنے بینک بیالنس میں اضافہ کرلیا ہے۔ شہر حیدرآباد میں بھی ایسے کئی حلقے ہیں جہاں مقامی جماعت نے اپنے امیدواروں کو اس لئے کھڑا نہیں کیا کیونکہ دیگر جماعتوں کے امیدواروں نے مسلم قیادت کا نوٹوں سے منہ بھر دیا ۔ بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے مسلم قیادت نے ووٹوں کا سودا کیا ہے تو پھر مسلم رائے دہندوں کو اس سچائی کا پتہ چلا کر اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کرنا چاہئے تا کہ ان کے ووٹوں کو یوں ایک جماعت کے یرغمال بنانے کے عمل کو برخواست کیا جاسکے ۔ گوشہ محل حلقہ ہو یا سکندرآباد پارلیمانی حلقہ یا کسی اور حلقے میں جہاں مسلمانوں کے ووٹوں کا توازن مضبوط ہے وہاں مسلم نام نہاد قیادت نے مسلمانوں کے ووٹوں کا سودا کرکے فرقہ پرستوں کو کامیاب بنانے کی راہ ہموار کی ہے اس طرح جن حلقوں سے جہاں مسلم ووٹ اہمیت رکھتے ہیں اگر کوئی فرقہ پرست لیڈر منتخب ہوتا ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کا سودا کرتے ہوئے ان کی نام نہاد قیادت نے انہیں دھوکہ دیا ہے ۔ عوام کو ان کی وفا کا صلہ دھوکہ کی صلہ میں ملتا ہے یہاں کئی باتیں غور طلب ہیں مثلا اگر مسلم قیادت نے امیدوار کھڑے کئے ہیں تو ووٹ کاٹنے کیلئے اگر امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا فرقہ پرستوں کو کامیاب بنانے کی راہ ہموار کردی گئی ہے۔ انتخابات کے نتائج ہی بتائیں گے کہ مسلم ووٹوں کا سودا کرنے والوں نے کس کو کس حد تک سیاسی فائدہ پہونچایا ہے ۔ مسلم رائے دہندوں کے سامنے سیاسی مطلع صاف دکھائی دے رہا ہے تو اپنے ووٹ کو ضائع ہونے نہ دیں ۔
فہرست رائے دہندگان سے نام غائب
انتخابات کے عین موقع پر فہرست رائے دہندگان کو کافی اہمیت حاصل ہوتی ہے مگر ہر انتخابات کے دوران رائے دہندوں میں اپنے ناموں کے غائب ہونے کی شکایت عام ہوتی ہے۔ اس مرتبہ بھی حیدرآباد میں کئی نام حذف پائے گئے یا کئی ناموں کو فرضی طور پر شامل کیا گیا ۔ اس طرح کی دھاندلیوں کے سدباب کے لئے الیکشن کمیشن نے کوئی سنجیدہ اصول اختیار نہیں کیا ہے ۔ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور کمپیوٹر کے اس دور میں رائے دہندوں کے ناموں کا حذف ہونا افسوناک اور تعجب خیز ہے ۔ ممبئی اور پونے کے سینکڑوں رائے دہندوں کو بھی شکایت ہے کہ ان کے نام حذف کئے گئے ۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرست میں ناموں کے غائب ہونے کی بڑے پیمانے کی شکایت پر اظہار تاسف کیا ہے ۔ ممبئی میں ایچ ڈی ایف سی بینک کے چیر مین دیپک پاریکھ،مشہوروکیل رام جیٹھ ملانی اور مراٹھی اداکار اتل کلکرنی کے بشمول دو لاکھ رائے دہندوں کے نام فہرست سے غائب پائے گئے لیکن ٹرین چھوٹ جانے کے بعد افسوس کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ انتخابات کے کئی مرحلہ گذر چکے ہیں عوام کو اپنے حق ووٹ سے محروم کرنا ایک فاش غلطی ہے ۔ الیکشن کمیشن جیسی مضبوط اتھاریٹی ان خامیوں کو دور کرنے میں کوتاہی سے دوچار ہوئی ہے تو یہ غور طلب امر ہے الیکشن کمشنر ایچ ایس برہمیا نے ممبئی اور پونے کے رائے دہندوں سے معذرت خواہی کی ہے جبکہ سارے ملک کے رائے دہندے اس کیفیت سے دوچار ہیں ۔ حیدرآباد و سکندرآباد میں بھی فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کے دوران کئی نام غائب پائے گئے دوبارہ ناموں کے اندر اج درج کے باوجود آخر تک بھی کئی نام شامل نہیں ہوسکے لہذا الیکشن کمیشن کو رائے دہندوں کی فہرست مرتب کرنے اور نئے ناموں کی شمولیت کے طریقہ کار کو موثر بنانے کی ضرورت ہے ۔ ادارہ جاتی غلطیوں کے تدارک کے لئے جامع اور موثر پروگرام بنانا چاہئے۔